شمالی افغانستان میں زور پکڑتی شورش

1,003

افغان سیکورٹی فورسز کی مدد اور تربیت کےلئے اس وقت تقریباً13,000 غیر ملکی موجود ہیں جن میں سے9,800 امریکی ہیں جن کی تعداد2017 کے اوائل میں آدھی رہ جائے گی۔

افغان طالبان کی مرکزی شوریٰ نے12اپریل کو اپنے مرحوم امیر ملا عمر کے نام کی مناسبت سے”آپریشن عمری“ کے آغاز کا اعلان کیا۔اس اعلان کے بعد تقریباً دو دنوں کے اندر افغان میڈیا اور حکومتی ذرائع کے مطابق طالبان نے افغانستان کے 13 صوبوں میں درجنوں حملے کیے ۔طالبان کے آپریشن عمری کے رد عمل میں افغان وزارت داخلہ نے”آپریشن شفق“ کا اعلان کیا۔

افغان سیکورٹی فورسز کی مدد اور تربیت کےلئے اس وقت تقریباً13,000 غیر ملکی موجود ہیں جن میں سے9,800 امریکی ہیں جن کی تعداد2017 کے اوائل میں آدھی رہ جائے گی۔

افغانستان کی وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے ترجمانوں نے17 اپریل کو بیانات جاری کئے کہ افغان سیکورٹی فورسز افغانستان کے12صوبوں کے25 اضلاع میں جنگجوﺅں کے خلاف مصروف جنگ ہیں۔ حیران کن طور پر ان12 صوبوں میں سے6 شمالی افغانستان میں واقع ہیں۔قندوز،بغلان،فریاب،بدخشاں،جوڑجان اور سرِپُل۔ افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق12اور14 اپریل کے درمیان افغان سیکورٹی فورسز نے شمالی صوبوں قندوز،جوزجان،سرِپُل اور فریاب میں درجنوں جنگجوﺅں کو ہلاک کیا جن میں5 اہم کمانڈر بھی شامل تھے۔شمالی افغانستان کے علاوہ جن صوبوں میں افغان سیکورٹی فورسز اور جنگجوﺅں کے درمیان لڑائی جاری ہے ان میں ہلمند،ننگرہار ،اورزگان، کیپسیہ،نورستان اور کنڑ شامل ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں سے افغانستان کی سیکورٹی صورتحال بحیثیت مجموعی ابتر ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ نے2015ءمیں افغانستان میں22,634 سیکورٹی واقعات ریکارڈ کئے جو کہ2014 میں ہونے والے ایسے واقعات سے3فیصد زیادہ ہیں۔افغانستان میں اس بگڑتی صورتحال کا ایک اہم پہلو ملک کے شمالی صوبوں میں پھیلتی شورش ،جنگجوﺅں کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور سرگرمیاں ہیں۔2015ءمیں طالبان نے افغانستان کے 24 شہری مراکز پر عارضی قبضہ کیا جن میں سے کئی شمالی افغانستان کے قندوز،بدخشاں،بغلان،فرباب،جوزجان،سرِپُل اور تخار صوبوں میں  واقع ہیں۔

درحقیقت افغانستان کے شمالی صوبوں،خاص طور پر وسط ایشیاءکی سرحد کے قریب یا ملحق علاقوں میں،سیکورٹی صورتحال کم و بیش دو،تین سالوں سے خراب ہوتی چلی آرہی ہے۔مقامی حکومتی اور فوجی ذرائع اور شہری اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ شمالی صوبوں کے کئی اضلاع جو وسط ایشیائی ریاستوں کے قریب ہیں عملاً طالبان اور ان کے غیر ملکی اتحادی جنگجوﺅں کے تسلط میں ہیں۔

طالبان،وسط ایشیائی اور کسی حد تک داعش سے متاثر جنگجوﺅں کی شمالی افغانستان میں بڑھتی سرگرمیوں نے روس اور وسط ایشیائی ریاستوں تاجکستان،ترکمانستان اور ازبکستان(جن کی افغانستان کے ساتھ2000کلو میٹر سے لمبی سرحد ہے) کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ مارچ2016 کے وسط میں روسی اور تاجک فوجوں نے تاجک۔افغان سرحد کے قریب ایک ہفتہ طویل فوجی مشقیں کیں۔ روسی وزیر دفاع کے مطابق ان مشقوں کا مقصد جنگجوﺅں کے حملے روکنا اور ان کے ٹھکانوں اور دیگر سرگرمیوں کا قلع قمع کرنا تھا۔2015ءمیں بھی روس نے تاجکستان سے مل کر تاجک صوبے خلتون میں فوجی مشقیں کیں تھیں جو افغانستان کے قریب واقع ہے۔

صوبہ قندوز کے ضلع امام صاحب کے سربراہ امام الدین قریشی نے ریڈیو فری یورپ پر ہونے والی ایک بحث(14فروری2016) میں کہا کہ ان کے ضلع میں جو جنگجو دھماکہ خیز مواد تیار کرتے اور خود کش دھماکے کرتے ہیں وہ تاجک اور ازبک ہیں۔جن کی تعداد امام صاحب اور دشتِ ارچی میں200 کے قریب ہے۔اسی 

اسی طرح افغانستان کے شمالی اور شمالی مشرقی صوبوں میں زور پکڑتی شورش چین اور پاکستان کےلئے بھی باعث تشویش ہے۔شمالی افغانستان کا بدخشاں صوبہ واخان پٹی کے دہانے پر واقع ہے جو افغانستان کو چین کے صوبے ژنگیانگ اور پاکستان کو تاجکستان سے جدا کرتی ہے۔شمالی اور شمال مشرقی افغانستان میں بڑھتی شورش چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کےلئے بھی خطرہ بن سکتی ہے کیونکہ اس سے پاکستان کے شمالی علاقے(جہاں سے یہ راہداری کاشغر،چین سے ملتی ہے) جنگجوﺅں کے حملوں کی زد میں آسکتے ہیں۔

تاریخی طور پر شمالی افغانستان طالبان مخالف دھڑوں کا مرکز رہا ہے جنہیں”شمالی اتحاد“ کا نام دیا جاتا ہے اور جو اب”متحدہ محاذ“ کے نام سے ایک اتحاد بنانے کی کوشش میں ہیں لیکن پچھلے کچھ سالوں سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ طالبان افغانستان کے جنوب اور مشرق میں اپنے روایتی مضبوط گڑھوں تک محدود نہیں رہے بلکہ شمالی افغانستان کے بہت سے علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ قائم کر چکے ہیں۔گزشتہ سال قندوز شہر پران کا عارضی قبضہ اس کی ایک مثال ہے۔انسٹی ٹیوٹ فاردی سٹڈی آف وار(ISW) کی افغانستان پر 2016ءکی پہلی سہ ماہی رپورٹ کے مطابق طالبان نہ صرف شمالی افغانستان کے بہت سے ضلعی مراکز پر قباض ہیں بلکہ مزید مراکز پر قبضے کےلئے لڑ رہے ہیں۔

 افغانستان کے مشرقی صوبوں کے برعکس شمال میں داعش کے حمایتی جنگجو تعداد میں کم ہیں۔کچھ وسط ایشیائی جنگجو،خاص طور پر ازبک شمالی افغانستان میں داعش کی حمایت کا اعلان کرتے آرہے ہی۔

بظاہر طالبان اپنی لڑائی بتدریج دور دراز کے دیہی علاقوں سے شہری مراکز تک لے آئے ہیں جن کی ایک مثال شمالی افغانستان کے صوبوں قندوز،تخار،فریاب،سرِپُل ،بغلان اور بدخشاں کے شہری مراکز میں ان کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے۔

طالبان کی اس نئی حکمت عملی کے تین اہم عناصر ہیں۔اول،اردگرد کے علاقوں پر کنٹرول کے ذریعے شہری مراکز کا محاصرہ۔دوم،بھرپور جنگی حملوں کے ذریعے شہری مراکز پر قبضہ کرنے کی کوشش اور سوم،بڑے شہروں،اہم مراکز،تنصیبات اور شخصیات پر دہشتگردانہ خود کش حملے۔

ماہرین کے مطابق بہت سے عوامل طالبان کو شمالی افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد دے رہے ہیں،مثلاً افغان پولیس اور حکومتی حمایت یافتہ مقامی ملیشیا فورسز کی ناقص کارکردگی،سیکورٹی کے اداروں کے درمیان تعاون اور رابطہ کی کمی،تقسیم اور مسابقت کا شکار مقامی سیاست اور قومیتی/نسلی گروہ بندیاں، سماجی اور معاشی ناہمواریاں،عوام کا حکومت اور مقامی سیکورٹی ساختوں پر عدم اعتماد اور افغان حکومت میں موجود تقسیم اور اس کے شمالی صوبوں میں حکومتی تقرریوں(بشمول سیکورٹی کے اداروں میں) پر منفی اثرات۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ(ICG) کے مطابق طالبان شمالی افغانستان میں لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کےلئے مذہب کا استعمال بھی کررہے ہیں۔اس کے لئے وہ تاجک اور ازبک برادریوں کے مذہبی رہنماﺅں اور علماءکی تائید حاصل کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ثانیاً،طالبان کو شمالی افغانستان کی ان آبادیوں اور گروہوں میں زیادہ حمایت مل رہی ہے جو اپنے آپ کو مقامی سیاسی و انتظامی صف بندیوں اور طاقت کے مراکز سے باہر سمجھتے ہیں۔مثال کے طور پر1990 کی دہائی میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد شمالی صوبہ قندوز کے تین اضلاع چہاردرہ،علی آباد اور دشت ارچی میں اکثر اہم حکومتی عہدے جمعیت اسلامی کے غیر پشتون عہدیداران اور کسی حد تک حزب اسلامی کے پاس تھے۔طالبان کے پشتون حمائتی جو حزب اسلامی کے ارکان نہ تھے وہ مقامی سیاسی و انتظامی ساختوں کا حصہ نہ بن سکے اور ان میں سے بہت سوں نے بالخصوص پچھلی ایک دہائی سے طالبان کی دوبارہ حمایت کرنا شروع کردی۔اس لئے یہ محض اتفاق نہیں لگتا کہ آج قندوز کے یہ تین اضلاع(علی آباد،چہاردرہ اور دشتِ ارچی) طالبان کا اہم گڑھ ہیں۔اسی طرح افغان سیکورٹی کے اداروں نے قندوز میں غیر حکومتی ملیشیا فورسز کی تنظیم اور بھرتیوں کےلئے جمعیت اسلامی اور اس کے ایک دھڑے شواری نظرِ شومال پر انحصار کیا۔اگرچہ حزب اسلامی بعد میں اس دوڑ میں شامل ہوگئی لیکن ان ملیشیا فورسز میں پشتونوں کی نمائندگی بہت کم رہی۔ ایک اور شمالی صوبے بغلان میں بھی مقامی ملیشیا فورسز کے زیادہ تر کمانڈر اندراب ضلع سے ہیں جو نسلی طور پر تاجک ہیں اور جمعیت اسلامی سے منسلک ہیں۔ اسی طرح سرِپُل صوبے میں جمعیت اسلامی، جنش ملی اسلامی اور حزب وحدت اسلامی کے درمیان سیاسی اور انتظامی طاقت کے حصول کےلئے مقابلے نے وہاں کی سیکورٹی اور امن پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔(جن کو طاقت کے مراکز سے دور رکھا گیا ان میں سے بہت سوں نے طالبان کی حمایت کو ترجیح دی)۔

شمالی افغانستان میں ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں پشتون اکثریت میں ہیں اور وہاں طالبان کےلئے کافی حمایت موجود ہے۔

مثال کے طور پر پچھلے سال طالبان کے قندوز کے محاصرہ کے دوران ایک ضلع گورتیپا(Gortepa) کے شنواری گاﺅں میں ایک افغان مقامی پولیس کے کمانڈر نے مقامی پشتون آبادی پر پولیس کی بجائے طالبان کی حمایت کا الزام لگایا تھا۔

تاہم افغانستان کے مشرقی صوبوں کے برعکس شمال میں داعش کے حمایتی جنگجو تعداد میں کم ہیں۔کچھ وسط ایشیائی جنگجو،خاص طور پر ازبک شمالی افغانستان میں داعش کی حمایت کا اعلان کرتے آرہے ہیں۔

قندوز کے دشتِ ارچی ضلع میں داعش کے حمایتی موجود ہیں جو بظاہر وسط ایشیائی اور طالبان گروہوں سے علیحدہ ہونے والے جنگجوﺅں پر مشتمل ہیں۔اپریل2015 میں قندوز میں بہت سے داعش سے منسلک ازبک جنگجو ملٹری آپریشن میں مارے گئے تھے۔ اسی طرح فریاب صوبے میں ’مقامی شہریوں کے مطابق‘ بہت سے ازبک جنگجو موجود ہیں جن میں سے کچھ طالبان کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں تو کچھ داعش کے علمبردار ہیں۔کچھ رپورٹس مطابق ازبک جنگجو سرِپُل صوبے میں بھی داعش اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان(آئی ایم یو) کے نام پر بھرتیوں میں مصروف ہیں۔

دراصل آئی ایم یو اور ایسٹ ترکمانستان اسلامی موومنٹ(ای ٹی آئی ایم) کے جنگجو شمالی افغانستان کے بہت سے علاقوں میں موجود ہیں۔ان میں وہ جنگجو بھی شامل ہیں جو پاکستانی فوج کے شمالی وزیرستان میں ملٹری آپریشن کے آغاز کے بعد وہاں منتقل ہوئے ہیں۔

کچھ رپورٹس کے مطابق کم و بیش300 آئی ایم یو جنگجو صرف قندوز میں موجود ہیں۔آئی ایم یو کا ایک دھڑا ”جماعت انصار اللہ“ کے نام سے وسط ایشیاءاور شمالی افغانستان میں سرگرم ہے۔

صوبہ قندوز کے ضلع امام صاحب کے سربراہ امام الدین قریشی نے ریڈیو فری یورپ پر ہونے والی ایک بحث(14فروری2016) میں کہا کہ ان کے ضلع میں جو جنگجو دھماکہ خیز مواد تیار کرتے اور خود کش دھماکے کرتے ہیں وہ تاجک اور ازبک ہیں۔جن کی تعداد امام صاحب اور دشتِ ارچی میں200 کے قریب ہے۔اسی طرح بدخشاں کی خوستک وادی کے رہائشی کہتے ہیں کہ وہاں وسط ایشیائی جنگجوﺅں کے50سے70 خاندان آباد ہیں جو کہ تاجک،ازبک اور چینی اوغر ہیں۔

کچھ رپورٹس کے مطابق آئی ایم یو کا ایک ٹوٹا ہوا دھڑا جند اللہ کے نام سے قندوز کے ضلع چہاردرہ میں سرگرم ہے جو کہ ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جو داعش سے متاثر ہیں۔

شمالی افغانستان میں بڑھتی ہوئی شورش افغان حکومت اور سیکورٹی فورسز کےلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ماہرین کے مطابق افغان سیکورٹی فورسز کو اہلیت و استعداد اور وسائل کی کمی جیسے چیلنجز کے ساتھ ساتھ،خاص طور پر شمالی افغانستان میں نسلی/قومیتی تقسیم اور سیکورٹی اہلکاروں بشمول افسران کی مختلف سیاسی دھڑوں سے وابستگی اور کرپشن جیسے مسائل کا سامنا بھی ہے۔

مجموعی طور پر افغان سیکورٹی فورسز کو(بشمول فوج،فضائیہ،پولیس اور مقامی پولیس) حرکت پذیری،لاجسٹکس ،انٹیلی جنس کا حصول اور تجزیہ،مختلف اداروں کے درمیان رابطہ اور تعاون اور بھرتیوں اور تربیت سے متعلقہ متنوع استعدادی مسائل کا سامنا ہے۔

افغان سیکورٹی فورسز کی مدد اور تربیت کےلئے اس وقت تقریباً13,000 غیر ملکی موجود ہیں جن میں سے9,800 امریکی ہیں جن کی تعداد2017 کے اوائل میں آدھی رہ جائے گی۔غیر ملکی افواج ریزولیوٹ سپورٹ مشن(آر ایس ایم) کا حصہ ہیں۔آر ایس ایم کے حال ہی میں فارغ ہونے والے کمانڈر جنرل جان کیمپبل کے مطابق امریکی فوجیوں کی تعداد آدمی ہونے سے ریزولیوٹ سپورٹ مشن کی تربیتی استعداد بہت محدود رہ جائے گی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں شورش اور تشدد میں کمی لانا چاہ رہی ہے جو کہ طالبان کے بڑھتے حملوں سے فی الحال ایک مشکل امر دکھائی دیتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...