اساتذہ کا معاشرتی تبدیلی میں کردار

1,245

سماجی رویوں میں تبدیلی چند روز کی ریاضت سے نہیں بلکہ سال ہا سال کی محنت سے ممکن ہے۔ اس کے لئے اساتذہ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ علمائے کرام کے بعد اساتذہ کا طبقہ ہے جس کا ربط و تعلق عوام سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اگرغور کیا جائے تو اساتذہ کا کردار اس حوالے سے زیادہ اہم ہے کہ اس کا تعلق نوجوان نسل سے ہوتا ہے اوراس تعلق کی بنیاد علم و تعلیم ہے۔ نوجوان نسل کا آئیڈیل اس کا استاد ہوتا ہے ۔ وہ اپنے استاد سے متاثر ہوتی اور اس کی کامیابی کا انحصار بھی اس کے استاد کے طرزِ تعلیم و تربیت پہ ہے۔ اس لئے سب سے پہلے چند گزارشات اساتذہ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

  1. استاد کی قابلیت فقط طلباءو طالبات کو کلاس کی تیاری تک نہ ہو یا وہ فقط چند درسی کتب اور نوٹس کی قابلیت نہ رکھے بلکہ وہ اس مضمون اور Branch of Knowledgeکی مہارت بھی حاصل کرے۔ گویاوہ صرف فلسفہ کا استاد نہ ہو بلکہ فلسفی بھی ہو۔ وہ فقط اسلامیات کا استاد نہ ہو بلکہ ”عالمِ دین“ بھی ہو۔ ہم نے یونیورسٹی کے پروفیسرز کو دیکھا ہے کہ انہوں نے سال ہا سال سے نوٹس تیار کر رکھے ہوتے ہیں، جب کلاس کا وقت ہوا۔ ایک صفحہ نکلا اور جاکر پڑھا آئے۔ اگر وہ واقعی معاشرے میں تبدیلی چاہتے ہیں  توانہیں واقعی اپنے دلچسپی کے مضمون اور موضوع پہ مہارت حاصل کر کے پڑھانا ہو گا تاکہ طلباءو طالبات کی تسلی بھی ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ سیکھ سکیں۔
  2. اساتذہ طلباءو طالبات کے سامنے اپنے کردار کو پیش کریں ۔مذاہب عالم کی تمام مقدس شخصیات نے اپنے اخلاق و کردار کو انسانیت کے سامنے پیش کیا۔ رسول اللہﷺ نے اپنے آپ کو ”معلم“ فرمایا۔ صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے دین سیکھا او رلوگوں کو سکھایا۔ گویا وہ آپﷺ کے تلامذہ تھے۔ استاد جتنا باکمال ہوگا وہ اتنے ہی با کمال شاگرد پیدا کرے گا۔ اساتذہ اپنے کردار کو پیش کریں اس کے اثرات گہرے اور دوررس ہوتے ہیں۔
  3. اساتذہ کا سلوک دوستانہ نہیں تو ظالمانہ بھی نہیں ہونا چاہیے، اگر طالب علم سوا ل کرے تو اسے خاموش کرانے کی بجائے ، اس کے سوال کا جواب دیا جائے۔ کلاس میں اس کی تضحیک نہ کی جائے کہ وہ دوبارہ سوال نہ کرے بلکہ طالب علم کی حوصلہ افزائی کے جائے کہ دوسرے طلباءبھی اپنے سوالات پیش کرنے کی جرات کر سکیں۔
  4. اساتذہ کا شمار ان طبقات میں ہوتا ہے جن سے ہمیشہ مثبت اور تعمیری کردار کی توقع کی جاتی ہے۔ جیسے ڈاکٹرزاوراہل علم کا طبقہ ۔ میرے خیال کے مطابق ،اساتذہ کو اپنا اعلیٰ کردار آخری حد تک پیش کرنا چاہیے، یعنی آخری حد تک صبر و برداشت کے ساتھ طلبہ کو مثبت اور تعمیری سوچ فراہم کرنی چاہیے۔
  5. اساتذہ کا رویہ تفریق پہ مبنی نہیں ہونا چاہئے۔ خواہ شاگرد مسلم ہو یا غیر مسلم ،یا کوئی ایساکہ وہ مسلم  توہے مگر اس کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو۔ اساتذہ کی نظرمیں سب طلباءبرابر ہیں۔ یہ تفریق استاذ کواس کے مقام سے گرانے کا سبب بنتی ہے ۔ کسی دور میں متحدہ ہندوستان میں انگریز اساتذہ پڑھایا کرتے تھے،ان سے تعلیم پانے والے لوگ فقط علم میں ہی نہیں  بلکہ کردارمیں بھی پختہ لوگ ہوتے تھے۔ استاد کوئی بھی ہو اس کے علم اور کردار کا اثر اس کے تلامذہ پہ ضرور ہوتا ہے۔
  6. اساتذہ فن خطابت اور لفاظی کے بجائے مقصدیت اور مرکزیت کے انداز میں پڑھائیں تو یہ طریقہ تعلیم نوجوانوں میں تبدیلی کا باعث بنے گا۔

جب تک کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوتی اس وقت تک  ہمیں اپنی حد تک چھوٹی چھوٹی تبدیلی کی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔بطور استاذ ہم یہ کام بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔ہمیں ایسا طرزتدریس اختیار کرنا چاہیے جس سے نصاب کی تمام جزئیات سامنے آجائیں اور نصاب کی روح کے مطابق اسے پڑھایا جاسکے۔اپنے سینئر اساتذہ اور ہر علم و فن کے ماہر علماء سے برابر رابطہ رکھنا چاہیے تاکہ طلبہ کی ذہنی تربیت اور علمی نشونما کرنے کے حوالے سے کماحقہ رہنمائی  حاصل ہوسکے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...