گلگت بلتستان ۔۔۔آزادی کے صبر آزما ستر سال کی کہانی

1,889

ملک بھر میں سترواں یوم آزادی بڑے جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا۔یوم آزادی پر ملک کے چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر اور گلگت  وبلتستان میں بڑے  بڑےاجتماعات ہوئے ۔ان اجتماعات میں تحریک پاکستان کے قائدین کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ۔گلگت و  بلتستان بالخصوص سکردومیں ہونے والے یہ اجتماعات ملک کے کسی بھی بڑے شہر میں ہونے والے اجتماعات سے بڑے ہوتے ہیں۔ پولوگرانڈ میں ہونے والے اجتماع میں شریک فورس کمانڈرز اور چیف سیکرٹریز کاہمیشہ  یہی موقف رہا ہے کہ یوم آزادی پر سکردو میں ہونے والا  اجتماع ملک کے کسی بھی شہر میں ہونے والے اجتماع سے بڑاہوتا ہے  اور یہاں کے لوگوں کا جذبہ ِحب الوطنی دید ینی ہے۔ اس جذبہ حب الوطنی کو دیکھ کر  یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں کے لوگ ملک کے کسی بھی شہر کے لوگوں سے زیادہ اچھے اور بہتر پاکستانی ہیں۔

“گلگت و  بلتستان بالخصوص سکردومیں ہونے والے یوم آزادی کے  اجتماعات ملک کے کسی بھی بڑے شہر میں ہونے والے اجتماعات سے بڑے ہوتے ہیں”

گلگت و بلتستان کے قومی دھارے میں شامل نہ ہونے اور اسے آئینی حقوق حاصل نہ ہونے کے باوجود یہاں کے لوگوں کا پاکستان  کے ساتھ جزبہ حب الوطنی غیر متزلزل ہے۔ یہ حقیقت بھی مد ِ نظر رہے کہ گلگت بلتستان ملک کا ایک ایسا خطہ ہے جوتقسیم ِبرصغیر کے نتیجے میں آزاد نہیں ہوا بلکہ آزادی کے حصول کے لئے یہاں کے لوگوں نے بڑی تعداد میں جانوں کی قربانیاں دیں۔31 اکتوبر 1947ءکے روز شروع ہونے والی گلگت بلتستان کی جنگِ آزادی لگ بھگ بیس ماہ تک جاری رہی اور لداخ تک کے علاقوں کو یہاں کے مجاہدین نے فتح کیا۔گلگت بلتستان کے مجاہدین آزادی نے  نظریہ پاکستان کی بنیاد پراس کا الحاق پاکستان کے ساتھ غیرمشروط طور پر کیا۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس خطے کے باسیوں کو تمام تر شہری و جمہوری حقوق دے دیے جاتے مگر ایسا آج تک نہیں ہوسکا ۔2009 ءتک یہاں وزارتِ اُمور کشمیر کی وساطت سے عملی طور پر بیوروکریسی کی حکومت تھی۔ اگرچہ  2009 ء میں گلگت بلتستان کو ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت ملک کا انتظامی صوبہ تو بنایا گیا ہےمگر اس نظام کو آئین کی چھتری میسر نہیں آسکی ۔یہاں کا نظام  حکومت  نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ عدالتی نظام بھی غیر آئینی ہے۔ جب بھی گلگت بلتستان میں آئینی اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ ہوتا ہے تویہ کہہ کر اس خطے کو آئینی حقوق دینے سے محروم رکھا جاتا ہے کہ ” اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قرارداوں کے باعث ایسا کرنا ممکن نہیں ۔اِن قراردادوں کی رُو سے گلگت بلتستان کے لوگوں نے مقبوضہ کشمیر میں مبینہ طور پر ہونے والی استصوابِ رائے میں حصّہ لینا ہے “یہ موقف رکھنے والے اگر پانچ منٹ وقت نکال کر اقوام متحدہ کی مذکورہ قراردادوں کو پڑھنے کی زحمت گواراکر لیں تو ان کی غلط فہمی دور ہوجاتی کیونکہ اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق کسی بھی قرارداد میں گلگت بلتستان کا ذکر تک موجود نہیں۔

آج ستر سال بعد بھی  گلگت و بلتستان کو آئینی حقوق سے محروم رکھنا دانشمندی نہیں۔اس صورت حال میں مختلف عناصرکو گلگت وبلتستان سے متعلق عالمی سطح پر منفی پروپیگنڈہ  کرنے اور گلگت و بلتستان میں عدم استحکام کے لئے کام کرنے کا موقعہ میسر آئے گا ۔اگر حکومت کو یہ معاملہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے درپیش ہے تو گلگت و بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے حل تک عبوری طور پر بھی آئینی صوبہ بنایا جا سکتا ہے۔ تمام تر حقوق سے محروم رہ کربھی گلگت و بلتستان میں یوم آزادی پر ملک کے سب سے بڑے اجتماعات کو قدر کی نگا ہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ان تمام آزمائشوں کے باوجود گلگت بلتستان کے لوگوں کے دلوں میں صرف اور صرف پاکستان ہی بستا ہے جو ان اجتماعات سے بھی واضح ہے۔ لیکن حکومت جتنی توجہ فاٹا میں اصلاحات کے نفاذ پر دے رہی ہے اتنی گلگت  وبلتستان کے معاملے پر نہیں دے رہی

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...