نروان ۔۔ ایک تجربہ
جنوری 2016 میں ہندستان کے شہر اگات پوری میں ایک دس روزہ مراقبے میں شرکت کا احوال
رشاد بخاری سماجی کارکن ہیں اور پاکستان میں دیر پا امن اور سماجی ترقی کے لئے کوشاں ہیں ۔ کئی سماجی تنظیموں سے وابستہ رہ چکے ہیں ۔پاکستان کے عصری مسائل پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ ان کے حل کا ایک جامع خاکہ بھی تجویز کرتے ہیں ۔دنیا کے کئی ممالک کا سفر کر چکے ہیں ۔ان کا یہ مضمون ان کے سفرِ ہندوستان کا احاطہ کرتا ہے جہاں وہ اپنے ایک منفرد تجربے کو بیان کرتے ہیں ۔امید ہے کہ قارئینِ تجزیات کے لئے مضمون خاص اور خاصے کی فکر لئے ہوئے ہو گا ۔(مدیر)
یہ بڑا پراسرار سا ماحول ہے۔ یہاں کے بوڑھے درختوں کی لٹوں کے ساتھ انسان کی داخلی کائنات کے شائد کچھ راز لپٹے ہوئے ہیں۔ یہاں کے پگوڈا (موناسٹری)کے سنہرے کلس سے کچھ اسرار جھانکتے نظر آتے ہیں۔ یہاں پر قدموں کی دھیمی چاپ اور آسمان پر پرندوں کی چہچہاہٹ کے سوا کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ سینکڑوں لوگ دبے پاں راہداریوں میں خاموشی سے چل رہے ہیں۔ سب کی نظریں جھکی ہیں۔ چال میں تواضع اور احتیاط ہے۔ اپنی ذات میں گم، گردن جھکائے سب دھیمے دھیمے پاؤں ایسے دھرتے ہیں کہ آواز پیدا نہ ہو یا کہیں کسی کے پاؤں کے نیچے کوئی کیڑا مکوڑا نہ آجائے۔ کوئی شخص کسی دوسرے سے آنکھ نہیں ملا رہا، کسی سے بات نہیں کر رہا۔ اس انجمن میں ہر شخص اپنی ذات میں تنہا ہے اور اپنی ہی ذات کو کھوجنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ان میں ہندستانی بھی ہیں، پاکستانی بھی، ایرانی بھی ہیں، یورپی اور امریکی بھی۔ ہندو بھی ہیں، مسلم بھی، مسیحی بھی، بدھ بھی اور لامذہب بھی، لیکن کوئی کسی سے تعارف حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا، کوئی کسی کو نہیں جان رہا۔ سب اپنی ہی کھوج میں ہیں۔ انہیں امید ہے کہ یہاں تھوڑی سے تپسیا سے ان کے دکھ اور درد، دور ہو جائیں گے، انہیں زندگی کا مطلب سمجھ میں آجائے گا، انہیں سکون اور خوشی میسر ہوگی، دکھ سکھ میں بدل جائے گا، اپنی بے معنی اور لاحاصل خواہشوں سے چھٹکارہ مل جائے گا۔ غرض ان کی خواہش ہے کہ انہیں نروان مل جائے جیسے اڑھائی ہزار سال پہلے کے گوتم کو مل گیا تھا اور وہ گوتم سے بدھا بن گیا تھا، مہاتما بدھ۔
سکھ، خوشی، طمانیت، سچ اور نروان کی تلاش میں سرگرداں آٹھ سو کے لگ بھگ لوگ یہاں موجود ہیں ۔ نروان کی خواہش کے اسیر ان لوگوں کو یہاں یہی تو بتایا جا رہا ہے کہ یہ خواہش ہی تو ان کی راہ کا سب سے بڑا پتھر ہے۔ یہ خواہش، یہ کامنا، یہ تمنا، یہ پکار، یہ لگا، یہ کلپنا، یہی تو ان کے پاؤں کی زنجیریں ہیں۔ یہی تو ان کے گلے سے بندھی وہ بھاری گٹھڑیاں ہیں جن کے کھنچا اور دبا سے ان کا سانس رکا جاتا ہے۔ سکون خوشی اور سکھ چاہیے (اور خدا بھی انہیں میں کہیں ہے)تو اسی پتھر کو توڑنا ہوگا، اسی زنجیر کو کاٹنا ہوگا، اپنی ناتمام اور لاحاصل خواہشوں، حسرتوں اور دکھوں کی ان گٹھڑیوں کو ہی تو کسی دریا میں بہانا ہوگا جنہیں ہم ساری زندگی اپنی گردن سے لٹکائے پھرتے ہیں اور نروس ہوتے ہیں کہ زندگی سے دکھ کیوں نہیں جاتا۔ خوشی نایاب سہی مگر کہیں ہوگی ۔ اور ہمیں یہی بتایا گیا کہ خوشی یہیں کہیں ہے، بس تھوڑی سی کوشش!
ابھی یہاں ہلکی ہلکی گھنٹیاں بجنے لگیں گی اور لوگ جانیں گے کہ پانچ منٹ بسرام (آرام)کا وقفہ ختم ہوگیا ہے۔ سب خاموشی سے اپنے دھمہ ہال کی طرف چلنا شروع کر دیں گے، باہر رکھے ریک پر جوتے اتاریں گے، ہلکے سے دروازہ کھول کر ہال میں داخل ہو جائیں گے، قطاروں میں ترتیب سے رکھی اپنی اپنی مخصوص گدیوں پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں گے، ہاتھوں کے پیالے بنا کر اپنے گھٹنوں پر رکھ لیں گے، اپنی کمر اور گردن سیدھی کریں گے اور سامنے چوکی پر چار زانوں بیٹھے اپنے استاد کی طرح آنکھیں بند کر لیں گے اور سمادھی بنا کر دھیان میں لگ جائیں گے۔
اچانک سپیکر سے ایک مدھر لیکن مضبوط آواز آئے گی، انچے انچے (غیر مستقل، غیر مستقل)پھر گوتم بدھ کے زمانے کی قدیم پالی زبان میں کچھ اشلوک پڑھے گی جو سمجھ تو نہیں آئیں گے لیکن ان کی مٹھاس اور ان کا تیقّن حواس پر شبنم کی پھوار بن کر برسے گا۔ یہ گوئنکا جی کی آواز ہے۔ وہ اشلوک پڑھنے کے بعد بدھ کی دھمہ فلاسفی اور وپسنا مراقبہ کی تکنیک کے تدریجی مرحلوں کے بارے میں موثر ہدایات دیں گے۔ ذہن کو ہر وقت جگائے رکھنے، چوکنا رکھنے، پرسکون رکھنے کا کہیں گے۔ اپنی آگاہی اور توازن کو برقرار رکھنے پر زور دیں گے، اپنی مسلسل چلتی سانس کا بغور مشاہدہ کرنے کا کہیں گے اور تفصیل سے بتائیں گے کہ آج کے، اس وقت کے اس مراقبے میں دھیان کیسے لگانا ہے۔ اس مراقبے میں سب سے اہم چیز اپنے بدن سے مکمل آگاہی حاصل کرنا اور اس کے ایک ایک حصے میں ہونے والی سنسناہٹ کو محسوس کرنا ہے۔ بدن کی سنسناہٹ کو مکمل ذہنی توجہ کے ذریعے محسوس کرنا ہی اس سارے عمل کی کلید ہے، جس سے امن اور طمانیت کے دروازے کھولے جا سکتے ہیں، اپنے من کی آلائشوں کو دور کیا جا سکتا ہے، ایک بھرپور، خوش، خودآگاہ اور انسان دوست زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ سچ ہمارے بدن کے چوکٹھے میں ہی کہیں موجود ہے اسے یہیں تلاش کرنا ہوگا۔
یہ اگات پوری، ضلع ناسک، ہندستان میں وپسنا انٹرنیشنل اکیڈمی ہے جہاں دس روزہ وپسنا مراقبہ کورس کرایا جا رہا ہے۔ ہم ویزے کی تاخیر کی وجہ سے ایک روز دیر سے پہنچے تاہم ہمارے لیے علیحدہ سے خصوصی تعارفی نشست کا انتظام کر کے باقی شرکا کے ساتھ کورس میں شامل کر لیا گیا۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد سے آنے والے ہم سولہ لوگ ہیں جن میں چار خواتین اور بارہ مرد شامل ہیں۔ خصوصی تعارفی نشست کے بعد خواتین کو دیگر شرکا سے الگ کر دیا گیا۔ معلوم ہواعورتوں اور مردوں کے لیے علیحدہ انتظام ہے۔ عورتوں کے کلاس رومز اور رہائش مردوں سے بالکل جدا ہے۔
ہمیں اس کورس میں داخلے سے قبل جو قواعد بتائے گئے ان میں شامل تھا کہ دس روز تک مکمل خاموشی اختیار کی جائے گی۔ صرف استاد کے ساتھ ایک مخصوص وقفے میں انفرادی سوالات کی اجازت ہوگی۔ سگریٹ سمیت کسی طرح کی نشہ آور شے استعمال نہیں کی جائے گی۔ فون، لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ وغیرہ کا استعمال قطعی ممنوع ہوگا بلکہ یہ تمام اشیا پہلے ہی روز دیگر قیمتی اشیا کے ساتھ اکیڈمی کے دفتر میں جمع کرا دی جائیں گی۔ کھانے میں کسی طرح کا گوشت وغیرہ شامل نہیں ہوگا۔ کھانا تمام شرکا کے لیے اکٹھے اکیڈمی کی طرف سے فراہم کیا جائے گا جو مکمل سبزیات پر مشتمل ہوگا۔ کورس کی کوئی فیس وصول نہیں کی جائے گی اور آمدورفت کے علاوہ تمام سہولیات مفت فراہم کی جائیں گی۔ دھمہ کی بنیادی سپرٹ خدمت اور رضاکارانہ عمل ہے۔ اگر کوئی چاہے تو کورس کے آخر میں چندہ ے سکتا ہے۔
روزانہ معمولات
یہاں کے معمولات شروع میں بہت سخت معلوم ہوئے لیکن آہستہ آہستہ اندازہ ہوا کہ انہیں بہت سوچ سمجھ کر، مکمل حساب کتاب کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے۔ صبح چار بجے اٹھنا ہے، ساڑھے چار بجے دھمہ ہال میں مراقبہ کے لیے اپنی گدی پر بیٹھ جانا ہے۔ ساڑھے چھ بجے تک آلتی پالتی مار کر ہدایات کے مطابق مراقبہ میں دھیان لگانا ہے۔ ساڑھے چھ سے سوا سات بجے تک ناشتہ کرنا ہے۔ سوا سات سے آٹھ بجے تک نہا دھو کر تیار ہو جانا ہے اور ایک بار پھر دھمہ ہال میں مراقبے کے لیے بیٹھ جانا ہے۔ نو بجے تک ایک گھنٹہ مکمل آنکھیں بند کر کے سمادھی میں رہنا ہے۔ پھر پانچ منٹ بسرام کے بعد دوبارہ گیارہ بجے تک اپنے اپنے طور پر ہال کے اندر یا پگوڈا میں ہر طالب علم کو الاٹ کیے گئے تین ضرب پانچ فٹ کے سیل میں بیٹھ کر تنہائی میں مراقبہ کرنا ہے۔ گیارہ سے پونے بارہ بجے تک ڈائننگ ہال میں دال چاول اور بھاجی پر مشتمل دوپہر کا کھانا کھانا ہے۔ ایک بجے تک آرام اور پھر ایک سے ڈھائی بجے تک دوبارہ ہال یا سیل میں جا کر مراقبے کی مشق کرنی ہے۔ ڈھائی سے ساڑھے تین بجے تک دوبارہ ہال میں ایک گھنٹے گروہی نشست ہو گی۔ یہ ایک گھنٹہ مکمل عزم کے ساتھ مراقبے میں بیٹھے رہنا ہے۔
پانچ منٹ کے آرام کے بعد پھر پانچ بجے تک انفرادی مراقبہ کرنا ہے۔ پانچ سے چھ بجے تک شام کی چائے اور آرام یا چہل قدمی کے لیے وقفہ ہوگا۔ چھ سے سات بجے تک ایک گھنٹے کی تیسری خصوصی نشست میں اجتماعی مراقبہ ہو گا۔ پھر پانچ منٹ وقفے کے بعد ساڑھے آٹھ بجے تک اس پورے دن کے اعمال اور ان کے فلسفے اور نتائج پر گرو گوئنکا کی خصوصی گفتگو وڈیو کے ذریعے سنائی جائے گی۔ ہندی، انگریزی، فارسی اور فرانسیسی زبانوں میں یہ گفتگو یا خطاب مختلف ہالوں میں مخصوص زبانیں جاننے والے گروہوں کے لیے ہوگا۔ تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کی یہ گفتگو جسے مکمل خاموشی سے سنا جائے گا دھمہ فلاسفی اور وپسنہ مراقبے کی تکنیک اور اس کے نتائج کے بارے میں پر مغز اور دلچسپ ہے۔ اس گفتگو میں بتایا جاتا ہے کہ وپسنا مراقبہ کی بنیادیں کتنی سائنسی ہیں اور کس طرح اس تکنیک کے ذریعے انسانی ذہن کے عادتی معمول (ہیبٹ پیٹرن)کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ کیسے انسانی ذات کے نہاں خانوں میں سے پرانی عادتوں اور آلائشوں کو دور کیا جا سکتا ہے، کیسے کلپنا(کریونگ)اور کراہت (اورشن) سے نجات پانی ہے جو تمام دکھوں اور بیماریوں کا منبع ہے۔ ساڑھے آٹھ بجے سے نو بجے تک آخری مراقبے کی نشست ہو گی جس کے بعد سب لوگ اپنے اپنے کمروں یا حجروں میں آرام کے لیے چلے جائیں گے۔
یہاں کا نظم و ضبط مثالی ہے۔ ایک خود کار انداز میں تمام معمولات اس طرح جاری ہیں کہ کہیں کوئی بدنظمی، عجلت کا مظاہرہ نہیں ہو رہا۔ ڈائننگ ہال کے سامنے کھانے کے اوقات میں خودبخود قطار بن جاتی ہے، لوگ اپنی اپنی باری سے کھانے کی سٹیل کی ٹرے اٹھاتے ہیں، درمیان میں لمبی میز پر رکھے کھانے کے دیگچوں سے اپنے لیے کھانا نکالتے ہیں، قریب میں لگی میزوں پر چپ چاپ بیٹھ کر کھاتے ہیں، ٹرے اٹھا کر کچن میں دھونے کے لیے دیتے ہیں اور خاموشی سے دوسرے دروازے سے باہر آجاتے ہیں۔ چالیس سے پینتالیس منٹ میں ایک ہزار کے لگ بھک لوگ آرام سے کھانا کھا کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ لانڈری کے لیے سب کو ایک ٹوکن جاری کر دیا گیا ہے جسے وہ دھونے والے کپڑوں کے ساتھ صبح چھ سے پونے آٹھ کے درمیان ایک میز پر رکھ دیتے ہیں جہاں سے اگلی صبح انہیں دھلے دھلائے، استری شدہ کپڑے مل جاتے ہیں۔ دھلائی کے البتہ دس روپے فی کپڑا کے حساب سے سب سے وصول کیے جائیں گے۔ اس کے لیے ایڈوانس میں تین سو روپے رجسٹریشن کے وقت لے کر رکھ لیے جاتے ہیں۔
انچے انچے
مہاتما برھ سے منسوب دھمہ فلسفے کا بنیادی اصول لا آف امپرمننس (انچے)ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ سب کچھ گزر جائے گا۔ کوئی شے مستقل نہیں۔ تبدیلی کا عمل مسلسل ہے، غیر مختتم۔ سب کچھ بدل جائے گا۔ دکھ سکھ، خوشی، غمی، تکلیف، پریشانی، کوئی شے ٹھہرنے والی نہیں، کوئی چیز مستقل نہیں، سب کچھ بدل جائے گا۔ کوئی چیز مستقل بالذات ہے تو وہ خود تبدیلی ہے۔ جب تک ہم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر لیتے، ہم سکون نہیں پا سکتے، ہمیں طمانیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ چیزوں کو ان کی اصل میں جیسا کہ وہ ہیں تسلیم کرلینے میں ہی سکون ہے نہ کہ جیسا کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہوں یا جیسے ہماری آنکھ ہماری خواہش کے مطابق انہیں دیکھتی ہے۔
ہمیں بتایا گیا کہ اشیا کی ماہیئت میں مسلسل تبدیلی کا یہ اصول سائنس سے ثابت شدہ ہے۔ سائنس کا ماننا ہے کہ ہر شے اپنی اصل میں نہایت چھوٹے ذرات (ایٹمز)کا ایک مجموعہ ہے۔ جو شے نظر آرہی ہے وہ محض ان ذرات کی ایک مخصوص انداز اور شکل میں تھرتھراہٹ ہے۔ شمع کا شعلہ بظاہر لگتا ہے کہ ایک ہے اور مسلسل جل رہا ہے لیکن وہ ایک صرف دکھائی دے رہا ہے، اصل میں وہ کروڑوں اربوں شعلے ہیں جو شمع کے دھاگے سے مسلسل نکل رہے ہیں، ایک آرہا ہے، ایک جا رہا ہے، ایک آ رہا ہے، ایک جا رہا ہے۔ اسی طرح بلب کی روشنی ہے جو ایک بار بلب جلانے سے ٹھہر نہیں گئی بلکہ مسلسل نکل رہی ہے، پھیل رہی ہے، غائب ہو رہی ہے۔ تبدیلی کا یہ اصول ہم جان لیں تو کبھی کسی نفع نقصان، کسی خوشی غمی، کسی آرام اور تکلیف میں اٹکیں گے نہیں بلکہ ہم آگے ہی بڑھتے چلے جائیں گے جیسے یہ سب چیزیں آگے بڑھ رہی ہیں، اپنی ہی رو میں، اپنے ہی دھارے میں، اپنی ہی موج میں۔
حرص اور کراہت (کریونگ اور اورشن)
ہم مسلسل کسی نہ کسی تمنا کی اسیری میں جی رہے ہوتے ہیں۔ کسی کے پانے کی خوشی ہے تو کسی کے کھونے کا غم اور کسی کو کھو کے پالینے کی جستجو۔ میرے خیال میں یہاں تک شائد یہ کوئی ایسی بری بات بھی نہیں کہ زندگی سے اگر خواہش نکل جائے تو اس کے سارے رنگ پھیکے پڑ جائیں گے۔ کسی سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہے تو یہاں رہنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کسی کے ملنے سے خوشی نہ ہو، کسی کے بچھڑنے سے دکھ نہ ہو تو میں تو اس زندگی سے بھر پایا۔ یہ جذبے ہی ہماری جڑت ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ زندگی تو دراصل تمنا ہی کا دوسرا نام ہے۔ تو پھر اصل میں مسئلہ کیا ہے؟ اور یہیں پر ایک باریک بات ہے۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
پھر یہ سارے انسانی فلسفے، نظریات، مذاہب، ہمیں خواہش سے اتنا ڈراتے کیوں ہیں؟ خواہش کو ایک عفریت کے روپ میں کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ گناہ کو اس سے جوڑا کیوں جاتا ہے؟ انسان کے مصائب، اس کے رنج و الم کا ذمہ دار اسے کیوں ٹھہرایا جاتا ہے؟ جہاں تک مجھے سمجھ میں آتا ہے مسئلہ خواہش کا نہیں، خواہش میں اٹک جانے کا ہے، اندھی خواہش کا ہے، حرص کا ہے، ناممکن کی جستجو میں پھنس کر رہ جانے کا ہے، ناقابل حصول شے کو ہر صورت میں حاصل کر لینے کی ضد کا ہے۔انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند رے۔ اور جب تک چاند نہیں ملے گا لاڈلا روتا ہی رہے گا۔ یعنی ہمیشہ روتا ہی رہے گا۔ مسئلہ کریونگ کا ہے، مسلسل خواہش کا ہے، حرص کا ہے، ہوس کا ہے، کبھی نہ پوری ہونے والی خواہش کا ہے، کبھی نہ بجھنے والی پیاس کا ہے، کبھی نہ مٹنے والی بھوک کا ہے۔ کسی کو چاہنا برا نہیں، لیکن اپنی چاہت نہ ملنے پر آگے بڑھنے سے انکار کر دینا برا ہے، اچھے برے ہر طریقے اور حربے سے اپنی خواہش کو حاصل کر لینے کا ارادہ برا ہے، کسی ایسی فرقت اور جدائی میں دیواروں سے ٹکریں مارنا برا ہے کیوں کہ یہ رویہ بہت سی برائیوں کے در وا کر دیتا ہے، بہت سے دکھوں کے دروازے کھول دیتا ہے، انسان میں کڑھن، کراہت اور نفرت پیدا کر دیتا ہے۔ یہ اپنی ذات سے ایک ناجائز محبت کے علاوہ کچھ نہیں۔ بس اسی سے بچنا ہے۔
میں نے لوگوں کو ایسی ایسی باتوں پر جلتے، کڑھتے، ناراض ہوتے، اپنی اور دوسروں کی زندگیاں خراب کرتے دیکھا ہے کہ اگر ہمدردی سے انسانی کمزوری کا پاس رکھا جاتا اور دل میں تھوڑی وسعت پیدا کرلی جاتی تو شکووں کی پوٹلی سے نکلنے والے سانپوں کے ڈسنے سے بچا جا سکتا تھا۔ غصے اور نفرت کی بھٹی کو محبت کی ایک چھوٹی سی چھلانگ سے عبور کیا جا سکتا تھا۔ ہمارے ایک عزیز اپنے ابا سے ہمیشہ اس لیے ناراض رہے کہ ایک بار انہوں نے موصوف کے مسلسل کام نہ کرنے پر غصے میں ان کے آگے سے کھانا اٹھا لیا تھا کہ جا پہلے کچھ کما کر لا۔ موصوف نے پھر کبھی ان کے سامنے کام کر کے نہ دیا اور اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگی اجیرن کیے رکھی۔ ایک اور صاحب کو اپنی اماں سے ہمیشہ یہ گلہ رہا کہ انہوں نے ہمیشہ ان کے چھوٹے بھائی کو ترجیح دی۔ کھانا پہلے اسے دے دیا، کپڑے پہلے اسے بنا دیے، ایک بھائی سے ہمیشہ پیار اور دوسرے پر پھٹکار۔ میں نے ان کو اکثر یہ باتیں یاد کر کے سسکتے، بلکتے اور کچکچاتے دیکھا۔ ان کو کبھی خوشی ملتی بھی تھی تودوسروں کو کسی پریشانی میں مبتلا دیکھ کر۔ ایک بھائی دوسرے بھائی سے اس لیے بہت عرصہ ناراض رہے کہ وہ تیسرے بھائی سے ان کی اجازت کے بغیر کیوں ملا۔ اب بھلا بتائیے یہ کوئی بات ہوئی۔ ایسی ہی بے شمار چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہم اپنا جی ہلکان کیے رکھتے ہیں۔ اکثر ایسی چیزیں جنہیں ہنس کر ٹالنے کی ضرورت ہوتی ہے ہم اپنی ذات کا روگ بنا لیتے ہیں۔
نفرت، بغض، کینہ، حسد، لالچ، رقابت جیسے مسائل دراصل کریونگ اور اورشن ہی کا شاخسانہ ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ اپنی ذات سے محبت نہ کی جائے، مطلب یہ ہے کہ یہ محبت اندھی نہ ہو اور اس میں اگر دوسروں کا حصہ بھی رکھ لیا جائے تو بہتر ہے۔ ایسی خواہش سے بچیں جو پوری نہ ہو سکتی ہو، ایسے لگا سے بچیں جو آپ کو ایک جگہ باندھ کر رکھ دے اور آپ کے اندر غصہ، نفرت اور کراہت پیدا کر دے۔ اپنے احساسات کا بغور مشاہدہ کریں، اپنے جذبات کو بغور سمجھیں اور ردعمل سے بچیں۔ آپ جو کچھ بھی کریں وہ آپ کا عمل ہونا چاہئے، کسی کا ردعمل نہیں۔
آج تک ہم نے یہی سمجھا تھا کہ اچھی چیزو ں کی خواہش اور بری چیزوں سے کراہت ایک اچھا اخلاقی رویہ ہے جسے اپنانا چاہئے۔ یعنی نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت۔ لیکن یہاں دھمہ کی فلاسفی سمجھتے اور وپسنا مراقبہ کی مشق کرتے ہوئے یہ نکتہ سمجھ میں آیا کہ نیکی یا اچھائی سے محبت میں بھی ایک الجھا ؤہے اور برائی یا بدی سے نفرت میں بھی ایک پیچیدگی ہے۔ یہ محبت اور نفرت دونوں شدید جذبے ہیں۔ ان دونوں کی زنجیریں کڑی ہیں۔ دونوں انسان کو اندھا کر سکتے ہیں۔ اس لیے ان میں الجھنا نہیں ہے بلکہ معروضی انداز میں ان کا مشاہدہ کر کے آگے بڑھ جانا ہے۔ انسانی خوشی، سکون اور سچ کی عمارت خود آگاہی اور اعتدال پر مبنی معروضی رویے (اکوینیمیٹی)کے دو ستونوں پر کھڑی ہے۔ یہی دو چیزیں انسان کو اس کی ذات کے گرداب سے نکال سکتی ہیں۔ مسلسل جو آموختہ دہرایا گیا وہ یہی تھا کہ:Be aware and Equanimeous at all moments.
مراقبہ
یہ مراقبہ ہے کیا جس کی صبح سے شام دس روز تک ہمیں اتنی مشق کرائی گئی کہ اگر ہمارے خدشات درست ہوتے تو ہمارے گھٹنے ٹوٹ چکے ہوتے، ہماری رانوں اور کمر کے پٹھے گھل کر بہ چکے ہوتے، ہمارے جوڑ ہل چکے ہوتے اور ہماری ریڑھ کی ہڈی خشک ہو کر ٹوٹ چکی ہوتی۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہمارے استاد جی کا اندازہ درست نکلا اور ہمیں سوائے شدید درد کے کوئی تکلیف نہ پہنچی اور دس روز بعد بھی ہمارے جوڑ اور ہڈیاں سلامت رہیں بلکہ ساتویں روز کے بعد مسلسل آسن جمائے رکھنے کا درد بھی کم ہوتا چلا گیا اور ہم مسلسل قریب پچاس منٹ تک سمادھی بنائے رکھنے کے قابل ہو گئے۔
وپسنا مراقبے کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ اس میں بنیادی طور پر تین چیزیں سکھائی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے شیلا ہے۔ شیلا کا مطلب اخلاقیات اور نظم و ضبط کے حوالے سے وہ تمام قواعد و ضوابط ہیں جن کا شروع میں ذکر کیا گیا اور جن کا آغاز خاموشی کے وعدے سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کم از کم کورس کے دوران گوشت اور نشہ آور اشیا سے مکمل پرہیز، ڈسپلن کی پابندی اور بنیادی اخلاقیات وغیرہ شامل ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ مہاتما بدھ لوگوں کو وپسنا کی تکنیک سکھانے سے قبل یہی شرائط رکھتے تھے اور سختی سے ان کی پابندی کراتے تھے۔
دوسری چیز سمادھی ہے جس کا مطلب آلتی پالتی مار کر آسن بنا کر دھیان لگانا ہے تاکہ خیالات کو بھٹکنے سے بچا کر توجہ کو مرکوز کیا جا سکے اور اپنے ذہن پر قابو پایا جا سکے۔ تیسری چیز پنہیا ہے جو اصل میں اس مراقبہ کا حاصل ہے۔ پنہیا کا مطلب ذہن کو آلائشوں سے پاک کرنا ہے تاکہ سکون اور مسرت حاصل کی جا سکے اور حقیقت کا ادراک ہو۔ اور یہی نروان ہے۔
کہنے کو تو یہ اور ایسی بہت سی باتیں کہی اور دعوے کیے جا سکتے ہیں لیکن کیا عملی اور تجربی سطح پر ایسا ممکن بھی ہے؟ دس دن تک شام کے لیکچرز میں ایک چیز پر بار بار زور دیا گیا کہ اعتقاد اندھا نہیں ہوتا۔ ہر شخص کا اپنا سچ ہوتا ہے۔ آپ کسی دوسرے کے سچ پر اس وقت تک یقین نہ کریں جب تک وہ آپ کے تجربے سے گزر کر آپ کا سچ نہ بن جائے۔ آپ کا سچ وہی ہے جو آپ کے تجربے نے آپ پر واضح کیا ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ چیزوں کو اس طرح دیکھنے کے قابل ہونا جس طرح کے وہ ہیں۔ ہمارا ذہن بڑا چالباز ہے۔ یہ ہمیں وہی سمجھاتا ہے جو ہم سمجھنا چاہتے ہیں۔ ہم ہمیشہ کسی خاص شے کی تلاش میں رہتے ہیں اور وہ چیز نہیں ڈھونڈ پاتے جو وہاں پر موجودہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ وہ نہ ڈھونڈیں جو آپ ڈھونڈنے گئے ہیں بلکہ وہ ڈھونڈیں جو اصل میں وہاں پر ہے۔ مکمل طور پر کسی ترجیح اور تعصب سے پاک ہو کر ہی حقیقت کی تلاش ممکن ہو سکتی ہے۔
فیس بک پر تبصرے