تلوروں پر پاکستان میں کیا کھیل کھیلا جا رہاہے؟

وسطی ایشائی پرندہ پاکستانی سیاست میں نہایت اہم کردار کا حامل ہو چکا ہے

1,583

تلور ایک عام پرندہ ہے جو وسطی ایشیا سے ہجرت کر کے ہر سال پاکستان آتا ہے ۔پاکستان میں اس کے شکارکے لئے عرب شیوخ آتے ہیں ۔یہاں ان کے نہ صرف محل ہیں بلکہ انہیں خصوصی درجات بھی حاصل ہیں ۔ا س پرندے کی نسل کو کیا خطرات لاحق ہیں اور عرب شیوخ کیوں اس پرندے کے دیوانے ہیں ؟وہ اپنے ا س شوق میں ا س حد تک آگے جا چکے ہیں کہ پاکستان اور خلیجی ممالک کے تعلقات تلور کے ارد گرد گھومتے نظر آتے ہیں ۔سبک حسنین کا یہ معلوماتی اور تحقیقاتی فیچر مؤقر انگریزی جریدے ’’ہیرالڈ ‘‘ کے گزشتہ شمارے میں شائع ہوا جس کا ترجمہ یہاں قارئینِ تجزیات کے لئے پیش کیا جا رہاہے ۔(مدیر)

ایک بوڑھا جو کبھی بلوچستان کے بے آب و گیاہ پہاڑوں میں گھوما کرتا تھا اس نے وصیت کر رکھی تھی کہ وہ جہاں مر جائے اسے وہیں دفنا دیا جائے ۔ایک رات وہ ایسی محسور کن ہوا کی آغوش میں سویا کہ پھر کبھی اٹھنے کو جی نہیں کیا۔لوگوں نے اسے اسی جگہ دفنا دیا اور اس جگہ کو وبشوط (سویا ہوا) کہنے لگے ۔آج یہی لفظ بگڑ کر واشک بن گیا ہے ۔
صدیوں کے بعد حاجی محمد بخش بھی انہی کے نقشِ پاپر یہاں پہنچا ۔اسے اس جگہ کے بارے میں صرف چند نشانیاں دی گئی تھیں جیسے کہ وہاں بارش کے پانی کی کوئی آبشار ہو گی یا پھر کوئی درخت ہو گا شاید یہی کچھ بتایا گیا تھا۔
بخش کا دعوی ٰ ہے کہ ا س کی عمر 90 سال ہے اور اس نے چار شادیاں کر رکھی ہیں ۔اس نے فخریہ لہجے میں بتایا کہ کیسے جب پرانے زمانے میں غیر ملکی یہاں کے پہاڑوں میں گم ہو جاتے تھے اور انہیں واپسی کا راستہ نہیں ملتا تھا تو وہ اسے وائرلیس پر کال کرتے تھے اور وہ انہیں محض چند گھنٹوں میں تلا ش کر لیا کرتا تھا کیونکہ وہ واشک کے علاقے کے چپے چپے سے واقف ہے۔
واشک کا قصبہ تقریباً بلوچستان کے وسط میں واقع ہے ۔جو کوئٹہ سے 455 کلومیٹر سے زائد جنوب اور گوادر سے 800 کلومیٹر شمال کی جانب ،پاک ایران سرحد سے150کلومیٹر مشرق کی جانب اور بلوچستان سندھ کی سرحد سے مغرب کی سمت 200 کلومیٹر دوری پر واقع ہے ۔واشک پہلے خاران ضلع کا حصہ تھا جسے 2005 میں الگ ضلع بنایا گیا ۔یہ وسطی مکران کے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور اس کا کچھ حصہ ایرانی سرحد سیستان اور ایرانی صوبہ بلوچستان سے متصل ہے ۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت بننے والا مغربی روٹ جو کوئٹہ اور گوادر کو منسلک کرے گا اس کا 235کلومیٹر واشک سے گزرتا ہے ۔یہ ضلع اتنا وسیع ہے کہ اسے آپ پورے خیبر پختونخواہ کا چالیس فیصد کہہ سکتے ہیں ۔لیکن اس کی آبادی کا تخمینہ 115,000. سے زائد نہیں ہے ۔اس لئے یہاں اگر حاجی محمد بخش کی طرح کا مقامی ساتھ نہ ہو تویہاں گم ہو جانے کا امکان بہت زیادہ ہے ۔وہ سڑک جو واشک اور خاران کو ملاتی ہے اس پر اینٹوں اور مٹی کے کچے گھر کافی تعداد میں نظر آتے ہیں ۔لیکن جیسے ہی سڑک قصبے سے نکلتی ہے تو انسانی آبادیاں کم ہونے لگتی ہیں اور آہستہ آہستہ ویرانی ہی ویرانی چھائی ہوئی ملتی ہے ۔کہیں کہیں کچھ کچے گھروں یا کھجور کے کچھ درختوں کی قطاریں نظر آجاتی ہیں ۔
واشک سے 30 کلومیٹر شمال مشرق کی جانب دور آپ کو چانک لوہے اور سیمنٹ کی ایک عمارت نظر آتی ہے جو اس وسیع و عریض علاقے میں بہت نمایا ں معلوم ہوتی ہے ۔یہ ائیر سٹرپ ہے جس میں ایک رہائشی کمپلیکس اور ایک ہینگر ہے ۔یہ ائیر سٹرپ ایک چھوٹے سے قصبے شمسی کے ساتھ واقع ہے اورآج کل پاکستان نیوی کے زیر استعمال ہے یہ بیس آج کل فنکشنل نہیں ہے ہر دس بارہ دنوں کے بعد ایک جہاز یہاں آتا ہے جو یہاں کے حکام کے لئے ضروری اشیاء لے کر آتا ہے نیوی سے پہلے یہ ایف سی کے کنٹرول میں تھا اور اس سے قبل نیٹو کے کنٹرول میں تھا ۔
جب یہ بیس نیٹو کے کنٹرول میں تھا تو امریکہ نے اسی بیس سے گیارہ ستمبر کے فوراً بعد 2001میں افغانستان میں حملے شروع کئے تھے ۔لیکن بعد ازاں یہ ڈرون طیاروں کے استعمال میں رہا جو پاک افغان سرحد کے دونوں جانب عسکریت پسندوں کو نشانہ بناتے تھے ۔لندن کا اخبار گارڈین وہ پہلا اخبار تھا جس نے بتایا تھا کہ ڈرون شمسی ائیر بیس سے پرواز کرتے ہیں ۔2009میں یہاں سی آئے اے اور بلیک واٹر اکھٹے کام کر رہے تھے ۔اخبار نے لکھا کہ بلیک واٹر شمسی ائیر بیس کے ارد گرد کے علاقے میں حفاظتی نقطہ نظر سے گشت جاری رکھے ہوئے تھی اور یہ ڈرون میں میزائل لوڈ کرنے میں بھی مددگار کے طور پر کام کرتی تھی جو کہ القائدہ ممبران کو ہدف بناتے تھے ۔اسی طرح کی سٹوری چار ماہ پہلے نیویارک ٹائمز نے بھی چھاپی تھی ۔
کچھ سال بعد نیٹو کے ہیلی کاپٹروں نے پاکستان کے شمال مغرب میں سلالہ چیک پوسٹ پر بمباری کر دی ۔26نومبر2011کو ہونے والے حملے کے نتیجے میں 28پاکستانی فوجی شہید ہو گئے جس کے جواب میں احتجاج کے طور پر پاکستان نے امریکہ سے کہا کہ وہ شمسی ایئر بیس خالی کر دیں ۔
یہ ائیر بیس پاکستان کی ملکیت نہیں تھا یہ ابوظہبی کے حکمرانوں نے تعمیر کروایا تھا تاکہ وہ اپنے محلوں سے یہاں براہ راست سفر کر کے وسطی ایشیا سے ہجرت کر کے آنے والے پرندے تلور کا شکار کر سکیں ۔یہ پرندے سردیوں میں پاکستان کا رخ کرتے ہیں ۔
یہاں عربوں کی آمد 1970کی دہائی کے آخر میں شروع ہوئی ۔ان میں سب سے معروف نام شیخ زید بن سلطان النہیان تھا جو اس وقت ابوظہبی کاحکمران تھا جو کہ متحدہ عرب امارات کا حصہ تھی جس میں دوبئی ، شارجہ ،عجمان ، فوجیراہ ، راس الخیمہ اور ابو ظہبی کے ساتھ ام القوائین بھی شامل تھیں ۔اس کے بیٹے اور متحدہ عرب امارات کے موجودہ حکمران شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے بھی واشک کا کئی بار دورہ کیا ہے ۔1980کے ابتدائی سالوں میں عربوں کو شمسی سے 80کلومیٹر شمال میں اترنا پڑتا تھا جس پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں اپنی شکار گاہ کے نزدیک ائیر سٹرپ بنانی چاہئے ۔انہوں نے شمسی کے رہائشی حاجی عبد الکریم میروانی سے رابطہ کیا تاکہ وہ اس مقصد کے لئے زمین خریدیں۔1987میں اس مقصد کے لئے اس نے اپنی 360ایکٹر زمین عربوں کو تحفے میں دے دی ۔
جہاں وہ کبھی گندم اور تربوز اگاتا تھا اب وہاں تعمیرات کے لئے بھاری مشینری پہنچ چکی تھی ۔میروانی نے کہا کہ ا س نے عرب شیخوں کو زمین زبانی کلامی معاہدے کے تحت دی جو بعد ازاں 1992میں حکومتِ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سرکاری معاہدے کی صورت اختیار کر گیا ۔شیخوں نے ابتدائی طور پر وہاں C-130 طیاروں کی لینڈنگ کے لئے ایک سٹرپ بنایا جسے بعد ازاں 1990میں مزید وسعت دے دی گئی ۔
جب متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کو معلوم ہوا کہ شمسی ائیر بیس امریکی ڈرون حملوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں تو انہیں اپنے تحفظ کی بہت زیادہ فکر لاحق ہوئی ۔مئی 2005کی ایک خفیہ تار کے مطابق جو کہ وکی لیکس کے ذریعے 2011میں منظرِ عام پر آئی اس کے مطابق متحدہ عرب امارات کی وزرات خارجہ کے ڈائریکٹر برائے ایشیا اور افریقہ احمد المصلے نے اس امر پر ناپسندیدگی کاا ظہار کیا کہ پاکستان میں متحدہ عرب امارات اور امریکی فوج کے تعاون کی خبریں کیوں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں پانچ سے چھ لاکھ پاکستانی رہائش پزیر ہیں اور متحدہ عرب امارات کا شاہی خاندان شکار کے لئے مسلسل پاکستان جاتا رہتا ہے ۔المصلے نے ان افراد کی سیکورٹی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا اور کہا کہ متحدہ عرب امارات میں تو انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن پاکستان میں شکار کے دوران انہیں خطرہ ہو سکتا ہے ۔
عرب شیخوں کو اس سے پہلے بھی اپنی سیکورٹی کو لاحق خطرات کا اندازہ تھا۔ائیر سٹرپ کے قریب ایک مثلث نما کمپاؤنڈ بنایا گیا جس کی دیواریں بیس فٹ اونچی ہیں۔پیر میروانی کے بقول شمسی میں یہ محل 1990میں بنایا گیا تھا۔یہ کمپاؤنڈ بیس ایکڑ پر محیط ہے یہ زمین میروانی نے شیخوں کو بطور تحفہ دی تھی۔اس کا مرکزہ دروازہ جو دس فٹ اونچا ہے اس پر واضح طور پر کندہ ہے کہ داخلے کا حق محفوظ ہے ۔مرکزی دروازے کے باہر پھولوں کی ایک کیاری ہے جو عرب حکمرانوں کی جانب سے اس بات کی غماز ہے کہ وہ اس خشک صحرا میں سبزے کے خواہش مند ہیں ۔جب آپ اس کمپاؤنڈ میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو خشک اور پتھریلی زمین کا وسیع منظر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ایک پگڈنڈی انتظامی بلاک کی جانب جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔اس کے ساتھ ایک پٹرول سٹیشن بھی ہے جو چالو حالت میں نہیں لگتا ۔اس کے پمپس کے گرد کپڑ الپٹا ہوا ہے تاکہ وہ گرد سے محفوظ رہیں ۔پٹرول سٹیشن سے آگے ایک بڑا کمپاؤنڈ ہے جس میں چار سو کاریں کھڑی کرنے کی گنجائش ہے ۔ایک درجن سے زائد لینڈ کروزراور سات ٹریکٹر بھی وہاں کھڑے تھے۔
محل کا منیجر ائیر کنڈیشنڈدفتر میں موجود تھا جو کہ گیراج کے بالکل سامنے بنایا گیا تھا۔اس کی کرسی کی پشت کی جانب شیخ خلیفہ کی تصویر آویزاں تھی ۔رہائشی کوارٹرز انتظامی بلاک کے پیچھے بنائے گئے ہیں۔آرکیٹکچر سادہ ہے ڈائننگ ہال اور گیسٹ رومز کے اندر جو فرنیچر موجود ہے وہ بہت آرام دہ ہے جو ہر سال تبدیل کر دیا جاتا ہے آج کل انہیں صفائی کے بغیر چھوا تک نہیں جاتا ۔
محل میں کل وقتی 24ملازم ہیں ۔جن میں دیکھ بھال کے علاوہ آٹو مکینک،باورچی، الیکٹریشنزوغیرہ شامل ہیں ۔اگرچہ شیخ نے گزشتہ پندرہ سال سے یہاں کا دورہ نہیں کیا پھر بھی ملازمین کو باقاعدگی سے تنخواہیں مل رہی ہیں ۔محل میں سکوت چھایا رہتا ہے ایک سال پہلے یہاں کے مینیجر نے خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی تھی کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہوا تھا۔کوئٹہ کے ایک سینئر رپورٹر جو اکثر مینجر سے رابطے میں رہتے تھے ان کے بقول وہ ڈپریشن میں تھا۔محل کے لوگ ا س معاملے پر بات نہیں کرتے مگر ایک نے کہا کہ وہ خود کو تنہا محسوس کرتا تھا۔موجودہ مینیجر کا تبادلہ رحیم یار خان سے یہاں ہوا ہے جہاں شیخوں کی وسیع و عریض زمینیں ہیں ۔
حکومت نے یہ جانتے ہوئے کہ ابو ظہبی کے شیخ واشک میں آج کل بہت کم آتے ہیں اس لئے اس نے قطر کے شیخوں کو (شکار کا موسم جو یکم نومبر 2016سے لے کر31جنوری2017تک تھا) کو دعوت دے دی ۔میر عبد الکریم نوشیروانی جو کہ بلوچستان میں ابو ظہبی کے شیخوں کے مفادات کی نگہبانی کرنے والے اوّلین افراد میں سے ہے وہ کہتا ہے کہ وفاقی وزیر جنرل (ر) عبد القادر بلوچ نے قطر سے شکار پارٹی لائی اور ایف سی کو کہا کہ وہ ان کے کیمپ کی حفاظت کرے ۔جس پر شیخ خلیفہ نے فوراً ناراضگی کا اظہار کیا کہ ان کی شکار گاہ کو قطریوں کے حوالے کیوں کیا گیا ہے۔ نوشیروانی ابو ظہبی جا کر شیخ سے ملا۔مقامی افراد نے بھی نئے مہمانوں کی آؤ بھگت نہیں کی بلکہ اس پر احتجاج کیا کہ انہیں کیوں واشک میں شکار کی اجازت دی گئی ۔ حاجی محمد بخش نے کہا ’’یہ شیخ خلیفہ کا علاقہ ہے ‘‘حاجی محمد بخش 1980سے شیخوں کے لئے گائیڈ کے فرائض سر انجام دے رہا ہے ۔میروانی لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’اگر قطری دوبارہ یہاں آئے تو ہم اس پر خوش نہیں ہوں گے ‘‘۔
قطریوں کو آج کل پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں کافی شہرت حاصل ہے صرف اس لئے نہیں کہ وہ ایک غلط جگہ شکار کے لئے گئے ۔2016کے آخری دو مہینوں میں شیخ حماد بن جاسم بن جبیر التمیمی جو قطر کے سابق وزیر اعظم اور قطری شاہی خاندان کے اہم رکن ہیں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں دو خط بھیجے جہاں نواز شریف پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کیسز زیر سماعت ہیں۔ ان خطوں میں کہا گیا کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے پاس دولت کا سبب وہ سرمایہ کاری ہے جو ان کا خاندان وہاں 1980سے کر رہا ہے ۔الثانی لکھتا ہے کہ اس کے باپ کے نواز شریف کے باپ سے کاروباری روابط ایک عرصے سے ہیں جنہوں نے قطر میں شاہی خاندان کے ساتھ مل کر ایک کروڑ بیس لاکھ درہم کی سرمایہ کاری کی تھی ۔
ان خطوط پر میڈیا میں خاص لے دے ہوئی جس پر سپریم کورٹ نے دو ماہ پہلے ان خطوط کو مسترد کر دیا ۔جج نے لکھا کہ ملک سے باہر پیسے کے بارے میں یہ خط قابل اعتماد ذریعہ نہیں ہے جس میں نواز شریف اور خاندان کی جائیدادوں اور دوسرے کاروباروں کا تزکرہ کیا گیا تھا۔جب تک سپریم کورٹ میں کیس زیر سماعت تھا قطریوں کا تزکرہ ہوتا رہا۔بشمول اس کیس کے :بلوچستان کے ضلع نوشکی میں یکم فروری 2017کو قطر سے ایک سولہ رکنی شکار پارٹی کو گرفتار کر لیا گیا ۔ڈان میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ’’قطر کے امیر کے لوگوں نے لیوی کی پوسٹ پر روکے جانے کو نظر انداز کرتے ہوئے بیرئر کو توڑ کر فرارہونے کی کوشش کی ‘‘۔قطر سے تلور کے شکار کے لئے آنے والی ایک اور پارٹی پر مشکیل ضلع میں15جنوری2017کو نامعلوم افراد نے حملہ کیا ۔ڈان کے مطابق لیوی حکام نے تصدیق کی ہے کہ اس حملے میں ایک مقامی پولیس افسر اور دو سیکورٹی حکام زخمی ہوئے ۔
نیوز ویب سائٹ ڈان ڈاٹ کام کے مطابق 17دسمبر 2016کوبلوچستان کے کچھی ضلع میں کسانوں اور قبائلیوں نے اس بات پر احتجاج کیا کہ ان کے علاقے میں قطری شہزادوں کو تلور کے شکار کے لئے کیوں جگہ الاٹ کی گئی ۔مظاہرین نے ایک سڑک کو بلاک کر دیا اور دعوی ٰ کیا کہ ضلع کی سانی شوران تحصیل کی تمام زرعی اراضی حکومت نے قطر کے شکاریوں کو الاٹ کر دی ہے ۔کوئٹہ کے ایک اخبار بلوچستان ایکسپریس میں شائع ہونے والی ایک تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ تقریباً نصف درجن کے قریب لوگوں نے بینر اٹھا رکھے ہیں جن پر لکھا ہے کہ وہ قطری شہزادوں کے لئے اپنی فصلوں کی قربانی نہیں دے سکتے ۔
ایک ہفتہ قبل پنجاب کے ضلع بھکر میں چنے کے کاشتکاروں نے احتجاج کیا کہ ایک قطری شکار پارٹی نے ان کی فصلوں کو روند ڈالا ہے اور اب ان کے نقصان کا ازالہ بھی نہیں کیا جا رہا۔
منکیرہ ضلع بھکر میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو پنجاب کے انتہائی مغرب میں خیبر پختونخواہ کی سرحد کے ساتھ واقع ہے ۔یہاں شکار کا علاقہ صحرائے تھل پر مشتمل ہے جو کہ بھکر ، خوشاب ، میانوالی ، لیہ ، مظفر گڑھ اور جھنگ کے اضلاع تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہ ایک غیر معمولی صحرا ہے جس کے مشرق میں دریائے چناب ،مغرب میں دریائے سندھ اور گھنے جنگلات ہیں ۔اس کی مٹی اور آب وہوا سردیوں میں چنے کی کاشت کے لئے انتہائی موزوں ہے۔جب چنے کے پودے قطار اندر قطار نظر آتے ہیں تو دور سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے زمین پر سبز قالین بچھا دی ہو ۔فصلوں کو ہونے والے نقصان پر احتجاج کے لئے منکیرہ کے دو کسانوں نے باقیوں کو احتجاج پر اکسایا ۔ان کے پاس ایک تصویر تھی جس میں نظر آرہا ہے کہ ایک شکار پارٹی جو لینڈ کروزر پر سوار ہے وہ چنے کے کھیتوں کے درمیان سے گزر رہی ہے جبکہ کئی دوسری گاڑیاں کھیتوں میں کھڑی ہیں ۔کچھ دوسرے شکاری عقابوں کے پکڑے ہوئے تلور کے شکار میں مشغول ہیں ۔ایک مرے ہوئے پرندے کے گرد عربی لبا س پہنے کچھ لوگ کھڑے ہیں ۔
کسان صرف اس لئے غصے میں نہیں کہ ان کی فصلوں کو نقصان ہوا بلکہ انہیں ا س بات پر بھی رنج ہے کہ قطری گزشتہ کئی سالوں سے منکیرہ آ رہے ہیں مگر انہوں نے علاقے کی ترقی کے لئے کوئی کام نہیں کیا ۔انہوں نے یہاں ایک مسجد ضرور تعمیر کروائی مگر ایک کسان کا کہنا تھا کہ اس مسجد کا انتظام ایک ایسے فرقے کے سپرد ہے جس کے ماننے والے یہاں بہت قلیل تعداد میں ہیں ۔گزشتہ سال انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ یہاں ایک ڈسپنسری بنوائیں گے لیکن ابھی تک ا س کی تعمیر شروع نہیں ہوئی ۔تھل سے کافی نیچے حیدر آباد نامی قصبے میں جاسم اینڈ حماد بن جاسم فاؤنڈیشن کی جانب سے 50بستروں کا ایک ہسپتال قائم کیا گیا ہے تاہم منکیرہ کے کسان کہتے ہیں کہ ا س کا انہیں کوئی خاص فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہ ان کے کھیتوں اور گاؤں سے 26کلومیٹر دوری پر واقع ہے ۔کسان کہتے ہیں کہ ان کے کھیتوں کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کا متبادل کوئی منصوبہ نہیں ہو سکتا تا ہم اس کا ذمہ دار وہ صرف قطریوں کو قرار نہیں دیتے ۔کسانوں کا یہ ماننا ہے کہ شکاریوں نے مسلم لیگ ن کے رکنِ پنجاب اسمبلی غضنفر عباس چیمہ کو کچھ پیسے دیئے تاکہ وہ کسانوں کو ہونے والے نقصان کا زر تلافی ادا کریں تاہم اس رقم کی مالیت کتنی تھی ا س کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں معلوم ۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ رقم تین اور بعض کے نزدیک چھ لاکھ روپے ہے ۔تاہم ایک بات پر سب کا اتفاق ہے کہ کسی کو ایک پائی بھی نہیں ملی۔
کسانوں نے انکشاف کیا کہ حزبِ اختلاف کی جماعت تحریکِ انصاف نے ان سے رابطہ کیا کہ وہ قطریوں کے خلاف احتجاج میں ان کی مدد کرنا چاہتی ہے جس کے لئے وہ اسلام آباد جانے کے لئے 15سے20بسوں اور مظاہرین کے کھانے پینے کا انتظام کر سکتے ہیں ۔ایک کسان کا کہنا تھا کہ پی آٹی آئی نے کچھی بلوچستان میں اس قسم کے احتجاج کی سرپرستی کی تھی ۔جہاں ضلعی چیئرمین سردار خان رند نے بھی مظاہرین سے خطاب کیا اور الزام عائد کیا کہ مقامی افراد کو اس لئے نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ یہ حکمران جماعت کے سیاسی طور پر مخالف ہیں ۔تاہم پی ٹی آئی کی مہم صرف اس حد تک نہیں کہ قطریوں کو شکار سے روکا جائے بلکہ وہ مسلم لیگ ن کو اس محاذ پرآڑے ہاتھو ں لینا چاہتے ہیں ۔قطری شکاریوں کے واپس جانے سے صرف ایک روز پہلے اور فصلوں کو ہونے والے نقصان کے دو ماہ بعد منکیرہ کے کسانوں نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا چند سو مظاہرین ماہنی گاؤں کے قریب اکھٹے ہوئے اور اپنے حق کے لئے آواز بلند کی مگر کسی نے اور حتی ٰ کہ میڈیا نے بھی ان کی آواز پر کان نہیں دھرے ۔
چہار مکان کوٹ ڈی جی کے جنوب میں ایک نیم پہاڑی علاقہ ہے ۔یہاں چار راستے آکر ملتے ہیں ۔تب سے اس جگہ کو چہار مکان کہتے ہیں ۔ایک راستہ مغرب کی سمت تھری میرواہ سے آتا ہے دوسرا مشرق میں چونڈیکو،تیسرا جنوب میں نوابشاہ اور چوتھا شمال میں خیر پور سے آتا ہے ۔یہ تلور کے شکار کی سب سے موزوں جگہ ہے ۔کیونکہ تلور پانی والے علاقوں کی نسبت صحرائی علاقے کو زیادہ پسند کرتا ہے ۔
جنوری کی ایک سرد صبح کو پہاڑی پر ایک خیمہ نصب تھا گزشتہ رات کی بارش نے موسم کو کافی ٹھنڈا کر دیا تھا ۔خیمے کے اندر فوم کے گدے اور کمبل بچھے ہوئے تھے ۔ابوظہبی کی نمبر پلیٹ کی ایک لینڈ کروزر خیمے کے باہر کھڑی تھی ۔گاڑی سے معلوم ہوتاتھا کہ یہاں عربوں کی کوئی شکار پارٹی قیام پزیر ہے ۔کیونکہ ایسی گاڑیاں عرب شیخ ہی پاکستان میں شکار کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔مٹی بارش کی وجہ سے گیلی تھی آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے ۔یہ شکار کے لئے ایک انتہائی موزوں دن تھالیکن شیخ تو ایک روز پہلے ہی جا چکے تھے ۔ان کے پر تعیش خیموں میں ائیر کنڈیشنڈ نصب تھے ۔قالینیں بچھائی گئی تھیں ۔بستر لگے ہوئے تھے جو عربوں کے جانے کے بعد بھی یہاں دیکھے جا سکتے تھے ۔عرب شکار کا سامان اپنے ساتھ لے گئے تھے جن میں تربیت یافتہ عقاب بھی شامل تھے مگر خیمہ بدستور نصب تھا جو ان کے سٹاف کے زیر استعمال تھا ۔شکار کا موسم ختم ہونے میں دو ہفتے رہ گئے تھے ایک پرائیویٹ سیکورٹی گارڈ بھی ڈیوٹی پر موجود تھا کیونکہ ایک چھوٹی شکار ی جماعت پہنچنے والی تھی ۔یہ ان تین جماعتوں میں سے آخری تھی جو شکار کے موسم میں کوٹ ڈی جی آتی ہیں ۔ایک جماعت میں شیخ خلیفہ کے دو بیٹے بھی شامل تھے ۔ماضی میں ہر جماعت تقریباً ایک ماہ قیام کرتی تھی اب حکومت نے قوانین کو سخت کر دیا ہے اب ہر جماعت کو شکار کے لئے زیادہ سے زیادہ دس دن دیئے جاتے ہیں اور اس دوران یہ سو سے زائد پرندوں کوشکار نہیں کر سکتے ۔
مقامی افراد جو کہ شکاریوں کے ساتھ کام کرتے ہیں وہ ستمبر میں ہی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں ۔حالانکہ شکار کی پہلی پارٹی کی آمد یکم نومبر کے بعد ہی متوقع ہوتی ہے اور فروری میں جب آخری جماعت واپس جاتی ہے اس کے جانے کے ہفتوں بعد بھی یہ لوگ مصروف ہوتے ہیں ۔شکار کے موسم کا انحصار تلور کی آمد کے سائیکل پر منحصر ہے ۔وہ وسطی ایشیا میں اپنے گھونسلوں کو اگست میں خیر آباد کہتے ہیں اور اگست میں بلوچستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ ستمبر تک سندھ اور جنوبی پنجاب تک پھیل جاتے ہیں ۔اس کے بعد فروری اور مارچ کے اوائل میں وہ ایران اور افغانستان کے راستے واپس اپنے وطنوں کو لوٹ جاتے ہیں ۔
شیخ اپنے کوٹ ڈی جی میں بنوائے گئے خصوصی محل میں قیام کرتے ہیں ۔جب یہاں پر سندھ کے تالپوروں کی حکومت تھی تو یہاں ایک قلعہ بھی بنایا گیا تھا یہ گاؤں اسی قلعے کی مناسبت سے مشہور ہے رات کی بارش کے بعد ایسے معلوم ہو رہا ہے کہ قلعے کا کوئی حصہ دور بہہ کر محل کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔
متحدہ عرب امارات کے حکام شکاریوں کی آمد سے پہلے ہی پہنچ جاتے ہیں ۔یہاں آ کر وہ مقامی افراد سے سیکورٹی گارڈ ، مدد گار ، ڈرائیور ، باورچی اور صفائی کرنے والے افراد بھرتی کرتے ہیں ۔کھانے پینے کی اشیا اور برتن خریدتے ہیں ۔اس کے بعد وہ صحرا میں چہار مکان کے گرد خیمے نصب کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔جولوگ شیخوں کے ساتھ 1980سے منسلک ہیں وہ شکار گاہ کو سیکٹرز میں تقسیم کر دیتے ہیں تاکہ گشت میں آسانی رہے وہ کئی روز پہلے ہی وہ صحرا میں گشت شروع کر دیتے ہیں تاکہ یہ جائزہ لیا جا سکے کہ کہیں کوئی اور تو تلوروں کا شکار نہیں کر رہا ۔ایک سنیئر کارکن نے بتایا کہ ہم صحراؤں میں کاروں پر گھومتے ہیں تاکہ شکار گاہ کے تحفظ کا جائزہ لے سکیں ۔کارکن نے اپنا نام نہیں بتایا کیونکہ میڈیا سے بات کرنے کی ان کو اجازت نہیں ہوتی ہم اس کا نام ’’مجیب ‘‘فرض کر لیتے ہیں ۔
ان جماعتوں کے افراد لینڈ کروزروں میں بیٹھ کر صبح آٹھ بجے خیموں سے نکل جاتے ہیں اور پھر شام کو لوٹتے ہیں ۔ہر گاڑی پر کم از کم تین افراد سوار ہوتے ہیں جن میں ایک سیکورٹی گارڈ ، ایک ڈرائیور اور سندھ کے محکمہ جنگلی حیات سے وابستہ ایک اہلکار شامل ہوتا ہے ۔حکومت کے اداروں کے باقی لوگ بھی وہاں موجود ہوتے ہیں تاکہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ کسی طے شدہ ضابطے کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی ۔یہ مقامی افراد کو بھی شکارسے روکتے ہیں ۔اس کام کے عوض ان کو سرکار سے تنخواہ کے ساتھ عرب شیخوں سے بھی رقم مل جاتی ہے۔
شیخوں کی آمد سے ایک ہفتہ قبل ہراول دستہ تلوروں کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔ تلوروں کے پر انہیں صحرا میں اپنا آپ چھپانے میں مد دفراہم کرتے ہیں ۔مرغابیاں ایک ساتھ اڑتی ہیں اس کے برعکس تلور تنہائی پسند ہوتے ہیں اس لئے انہیں تلاش کرنا اور زیادہ مشکل ہوتا ہے ۔ یہ ہراول دستہ ایک نقشے کی مدد سے ایک مفصل رپورٹ تیار کرتا ہے ۔جس میں تلوروں کے مقامات کی نشاندہی کی جاتی ہے ۔ مجیب نے بتایا کہ ’’جیسے ہی کوئی شیخ کوٹ ڈی جی پہنچتا ہے تو جس چیز کے بارے میں وہ سب سے پہلے پوچھتا ہے وہ یہی نقشہ ہوتا ہے ‘‘۔جس کے بعد محل کا مینیجر شیخ کو نقشہ فراہم کرتا ہے نقشہ دیکھنے کے بعد شیخ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے سب سے پہلے کون سی جگہ جانا ہے ۔پرندوں کی موجودگی کی نشاندہی کے لئے ہراول دستہ اپنی نیندوں کی پرواء نہ کرتے ہوئے صبح چار بجے نکل جاتا ہے اور شام سات بجے لوٹ کر آتا ہے ۔شکار کے روز شیخ کی گاڑی کے ساتھ دس بارہ لینڈ کروزرز ہوتی ہیں ۔سندھ رینجرز کی تین گاڑیاں بھی سیکورٹی کے لئے ساتھ ہوتی ہیں ۔تمام گاڑیاں ابو ظہبی سے منگوائی جاتی ہیں جو صحرا میں 120کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتی ہیں تاکہ اپنے شکار تک برق رفتاری کے ساتھ پہنچ سکیں ۔
کچھ مقامی افراد تلور کی تلا ش میں بہت ماہر ہوتے ہیں ۔وہ عموماً ان گاڑیوں کے آگے سفر کرتے ہیں ۔تلور عموماً رات کو سفر کرتا ہے اگر رات گرم ہو تو یہ ٹھہر جاتا ہے لیکن اگر سرد ہو تو یہ سفر جاری رکھتا ہے ۔تلورچاند راتوں میں بھی طویل واک کر نے کی اہلیت رکھتا ہے ۔ماہرین تلور کی قدموں کے نشانات تلاش کرتے ہیں جیسے ہی نظر آجائیں تووہ یہ قیاس کرتے ہیں کہ یہاں سے کچھ کلومیٹر کے اندر تلور موجود ہے ۔یہ ماہرین ہراول دستے تک اطلاع پہنچاتے ہیں جو آگے پیغام شیخ تک پہنچاتا ہے جو فوراً لینڈ کروزرز گاڑیوں میں شکار کی جانب رواں دواں ہو جاتے ہیں۔ ایک شکاری ان گاڑیوں کے سن روف سے اوپر سر نکال کر بازو پر عقاب اٹھائے کھڑا ہوتا ہے ۔ہر کوئی تلور کے اڑنے کا منتظر ہوتا ہے جیسے ہی تلور اپنے پر کھولتا ہے عقاب اڑان بھرتا ہے ۔مجیب کے بقول’’ یہ زندگی اور موت کی حالت ہوتی ہے ‘‘۔نہ صرف تلوروں کے لئے بلکہ مقامی سٹاف کے لئے بھی ۔اگر کوئی پرندہ شیخ کے ہاتھ سے نکل جائے تو وہ بہت مغموم ہو جاتے ہیں لیکن عقاب شکار کو کہاں جانے دیتا ہے ۔
سید تصویر حسین جو کہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور شکار کاشوق رکھتے ہیں ۔وہ پاکستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں بھی تحفظات رکھتے ہیں ان کا خاندان پرندوں کا ایک فارم بھی چلاتا ہے جو ابو ظہبی کے حکمران کے محل سے صرف دس منٹ کی مسافت پر رائے ونڈ لاہور میں واقع ہے ۔ تصویر نے یونیورسٹی روڈ پر اپنی والدہ کے گھر میں ہم سے گفتگو کی ۔ا س نے بتایا کہ کیسے 1980کے اوائل میں اس کی ملاقات شیخ سے ہوئی تھی ۔ذولفقار شاہ جو کہ آرمی کا سابق کرنل تھا اس نے تصویر کے بڑے بھائی توقیر حسین کو بلایا اور کہا کہ عزت ماب آپ کے فارم کا دورہ کرنا چاہتے ہیں ۔توقیر گاؤں میں موجود نہیں تھا اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو کہا کہ وہ مہمانوں کی دیکھ بھال کرے ۔
تصویر نے بتایا کہ اس نے ٹی شرٹ پہن رکھی تھی ۔ شیخ زید نے اپنے روایتی عربی رومال کے بجائے رومال کوسر پر لپیٹ رکھا تھا۔وہ بہت چاک و چوبند اور خوبصورت لگ رہا تھا۔شیخ زید نے تصویر کے ساتھ مترجم کے ذریعے گفتگو کی ۔اس نے فارم میں موجود موروں کے بارے میں دریافت کیا کہ یہ پرندہ کتنا تیز اڑ سکتا ہے ۔تصویر نے شیخ کو بتایا کہ یہ جب پورے زور سے اڑان بھرے تو یہ کافی تیز ہوتا ہے مگر پھر بھی یہ تلوروں جتنا تیز نہیں اڑ سکتا ۔ جب یہ بات مترجم نے شیخ کو بتائی تو وہ تصویر کے چہرے کی جانب دیکھنے لگا اور کہا کہ آپ تلور کے بارے میں کیسے جانتے ہیں ؟
تصویر نے کہا ’’میں بھی شکاری ہوں ‘‘۔
اگلا سوال تھا ’’آپ کہاں شکار کرتے ہیں ؟‘‘
’’میں بھی وہیں شکار کرتا ہوں جہاں آپ کرتے ہیں ‘‘۔
تصویر کے اباؤاجداد رحیم یار خان سے تعلق رکھتے ہیں اس نے شیخ کو بتایا کہ ’’ہمارے اباؤاجداد آپ کے یہاں آنے سے بہت پہلے شکار کرتے تھے ‘‘۔
تصویر نے مجھے بتایا کہ ہم ا س روایت کو آج بھی قائم رکھے ہوئے ہیں ۔تلور کے شکار پر پاکستان کے کئی علاقوں میں سخت پابندی عائد ہے ۔
’’ہم تلور کا شکار نہیں کرنا چاہتے لیکن صرف ا س لئے کرتے ہیں کہ اگر غیر ملکیوں کو اجازت ہے تو پھر ہمیں کیوں نہیں ‘‘۔
وفاقی حکومت وزارت خارجہ کے ذریعے غیر ملکی افراد کو شکار کے خصوصی پرمٹ جاری کرتی ہے مگر تصویر جیسے افراد کے پاس ایسے پرمٹ نہیں ہیں ۔
جب شیخ زید پہلی بار 1980میں واشک میں تلوروں کے شکار کے لئے آیا تو میر عبدالکریم نوشیروانی ضلع کونسل خاران کا ممبر تھا۔اس نے بتایا کہ شیخ یہاں پندرہ دن مقیم رہا اس دوران اسے شکار کے لئے 90سال کے لئے زمین لیز پر دی گئی تھی ۔نوشیروانی نے بتایا کہ جب تک شیخوں کو رحیم یار خان میں زمین الاٹ نہیں کی گئی تھی وہ صرف واشک میں شکار کھیلا کرتے تھے ۔
نوشیروانی ضلع خاران سے چار بار صوبائی اسمبلی کا ممبر منتخب ہو چکا ہے اس کا بیٹا شعیب 2002سے 2008کے دوران بلوچستان کا وزیر داخلہ بھی رہا ۔اس دوران وہ خاران اور واشک میں عرب شکاریوں کا اہم کارندہ بھی بن گیا۔اس کے فرائض میں انہیں مختلف مقامات تک بحفاظت لے کر جانا بھی شامل تھاان کے قیام و طعام کا انتظام بھی ا س کے ذمہ تھا جس کے عوض اسے شیخ حج اور عمرے کے علاوہ ہر سال ایک نئی کار بھی دیتے ہیں ۔
لیکن ابو ظہبی کے حکمرانوں کا مددگار اکیلا نوشیروانی نہیں ہے شاید وہ پہلا بھی نہ ہو ۔ایک آغا حسن عابدی مرحوم ہوا کرتے تھے جنہوں نے شیخ زید کے خاندان کے پیسوں سے BCCIبنک قائم کیا تھا ۔1970میں جب وہ یونائیٹڈ بنک کے سینئر افسر تھے تو انہوں نے متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان سے قریبی مراسم استوار کر لئے تھے ۔نوشیروانی کے بقول تین دوسرے افراد بھی شیخوں کے ابتدائی مددگاروں میں شامل تھے ایک نیشنل بنک آف پاکستان کے متحدہ عرب امارات میں سینئر افسر ظفر اقبال ،سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے اسلام اور کراچی کے محسن تھے ۔ان تینوں اور نوشیروانی کی اجتماعی کوششوں کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے پہلے واشک اور بعد ازاں رحیم یار خان میں شیخوں کو زمینیں الاٹ کیں ۔
چوہدری منیر اس منظر نامے میں کافی دیر بعد آئے لیکن جہاں تک ابو ظہبی کے مددگاروں کا تعلق ہے وہ تمام مدد گاروں پر بازی لے گئے ۔ان کا تعلق رحیم یار خان کے ایک متمول اور سیاسی گھرانے سے ہے یہ سماجی اور سیاسی اثر و رسوخ کے بھی حامل تھے اور باا ثر پاکستانیوں میں شمار ہوتے تھے ۔چوہدری منیر کی بہن کی شادی بھی ابو ظہبی کے شاہی خاندان میں ہوئی۔ ان کے اپنے بیٹے کی شادی نواز شریف کی نواسی سے ہوئی اور بیٹی کی شادی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل نوید مختار کے بیٹے سے ہوئی ہے ۔اس کے ایک چچا زاد فوج سے برگیڈئیر ریٹائر ہیں اور ایک غیر سرکاری تنظیم Houbara Foundation Internationalچلاتے ہیں جو عرب شکاریوں اور بالخصوص ابو ظہبی کے حکمرانوں کو سہولیات فراہم کرتی ہے ۔نوید مختار کا باپ بھی جاسوس (Spymaster) رہ چکا ہے ۔
میجر (ر) طاہر مجید جس کا ایک ہاتھ خاکی جیکٹ کے اندر اور دوسرے ہاتھ میں موبائل فون ہے وہ میجر (ر) عبد الرؤف سے پوچھتا ہے ’’کیا تم نے قطریوں کو پلمبر بھیجا ہے ؟‘‘
رؤف جو گنا چوس رہا ہے اس نے مجید کی طرف دیکھا کچھ سوچا اور نفی میں سر ہلا دیا ۔
مجید کہتا ہے’’ وہ کسی پلمبر کی بات کر رہے ہیں‘‘ ۔
رؤف پنجابی میں کسی کو آواز دیتا ہے ا س کے لئے مزید گنا توڑ کر لائیں ۔
یہ دونوں افواجِ پاکستان میں افسر رہ چکے ہیں ۔اور اب Houbara Fondation Internationalکے ملازم ہیں ۔مجید دوبئی سے آنے والے شخصیات کی دیکھ بھال کرتا ہے مگر اس سال اس نے قطریوں کو بھی لیہ اور بھکر میں کیمپ بنانے میں مدد فراہم کی ۔یہ دونوں میجر ضلع راجن پور کے مقام روجھان میں قیام پزیر ہیں جو دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ہے ۔جنوب مغربی پنجاب میں سردیوں کا موسم ہے دریائے سندھ اتنا صاف شفاف ہے کہ ا س میں آسمان جھلکتا نظر آتا ہے ۔یہ جگہ ایک پل کے نزدیک ہے جو روجھان اور رحیم یار خان کو ملاتا ہے ۔یہ پل ابو ظہبی کے شاہی خاندان نے تعمیر کروایا تھا ۔اس پل کی وجہ سے مقامی افراد اپنا گنا رحیم یار خان کی ملوں تک با آسانی بھیج سکتے ہیں ورنہ اس سے قبل انہیں رحیم یار خان تک جانے کے لئے ایک لمبا چکر کاٹنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے ان کا خرچہ بھی بڑھ جاتا تھا ۔یہاں سے پندرہ کلومیٹر دور ایک مستقل پل بھی زیر تعمیر ہے مگر اس پر کام رک چکا ہے ۔جب دریائے سندھ میں پانی بڑھ جاتا ہے تو یہ پل استعمال کے قابل نہیں رہتا ۔پندرہ افراد اس پل کی مسلسل نگرانی کرتے ہیں جبکہ سو کے قریب افراد اس کے ساتھ جزوی طور پر منسلک ہیں جو پل کی دیکھ بھال میں ضروری تربیت فراہم کرتے ہیں ۔
چالیس سالہ سردار شباب حسین مزاری جن کا تعلق متحدہ عرب امارات کے معاونین سے ہے جنہوں نے سردی سے بچنے کے لئے جیکٹ زیبِ تن کر رکھی تھی وہ کہتے ہیں ’’ابو ظہبی کی حکومت نے روجھان میں کچھ ترقیاتی کام کروائے ہیں ‘‘۔Houbara Fondation International کے مطابق یہ معاونین پاکستان میں متحدہ عرب امارات کے شیخوں کی جانب سے بنائے گئے 258ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کر رہے ہیں ۔جن میں 28ڈسپنسریاں اور کلینکس،14بڑی سڑکیں اور چھ پل ، چھ ایئر پورٹس، 26رہائشی منصوبے شامل ہیں جو غریب افراد کے علاوہ ڈسپنسریوں اور کلینکس کے ملازمین کے لئے بنائے گئے ہیں۔دوکانیں اور غسل خانے راجن پور ، رحیم یار خان ،چولستان ، خاران ،میر پور سکرو،واشک اور لاڑکانہ میں بنائے گئے ہیں پشاور ، سوات ،جنوبی وزیرستان ،بہاولپور،رحیم یار خان ،راجن پور ،اسلام آباد ، واشک ،خاران اور ڈیری غازی خان میں 30سکول اور کالج بھی کام کر رہے ہیں ۔واشک اور خاران کے تین ہسپتالوں کو جنریٹرز کے ذریعے بجلی مہیا کی جارہی ہے ۔کراچی ، لاہور اور بہاولپور کی یونیورسٹیوں میں اسلامک سٹڈیز اور ریسرچ کے تین بڑے سینٹرز بھی چل رہے ہیں اس کے علاوہ بھی ابو ظہبی کے کئی ایک منصوبے کام کر رہے ہیں ۔Houbara Foundation Internationalپہلے ان منصوبوں کی بروقت تکمیل کو یقینی بناتی ہے اور ا س کے بعد ان کو متعلقہ صوبائی حکومتوں کے حوالے کر دیتی ہے ۔ رانا کمال الدین جو فاؤنڈیشن بننے سے پہلے پاک فوج میں کرنل تھے ان کے مطابق وہ منصوبہ جو مکمل ہونے میں پانچ سال لیتا تھا اب اسے دوسال میں مکمل کر کے حکومت کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔کمال الدین منصوبوں کی افادیت کے حوالے سے متعلقہ وزیر اعلٰی سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی منصوبے حکومت کے حوالے کرنے کے باوجود اپنی افادیت میں ناکام رہے ۔ابو ظہبی کی جانب سے1992میں خاران میں50بستروں کا ہسپتال بنایا گیا تھاجس میں آپریشن تھیٹر بھی ہے مگر وہاں کوئی سرجن دستیاب نہیں ہے ۔ہسپتال میں مقامی عورتوں کو علاج معالجے کی سہولت بھی ا س لئے میسر نہیں کہ وہاں کوئی عورت سٹاف میں نہیں ہے اس لئے عورتوں کو زچگی کے دوران کوئٹہ جانا پڑتا ہے جو یہاں سے چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے ۔خاران اور واشک میں کئی افراد کہتے ہیں کہ اگر شیخ پاکستان میں ایک کروڑ روپیہ لگاتے ہیں تو اس کا نوّے فیصد پاکستان کے دوسرے علاقوں میں صرف کیا جاتا ہے ۔ان کا اشارہ شاید رحیم یار خان کی طرف تھا۔واشک کے لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ محل کے ملازمین بھی مقامی نہیں ہیں وہ بھی رحیم یار خان یا پنجاب کے دیگر حصوں سے آتے ہیں ۔
تاہم نوشیروانی اس سے متفق نہیں کہ واشک کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس کے مطابق شیخ خلیفہ اور ا س کے خاندان نے 200سے زائد لوگوں کو ملازمتیں دی ہیں رحیم یار خان میں جو لوگ سال ہا سال سے شیخوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں انہیں ان کے تجربے کی بنیاد پر یہاں ملازمتیں دی گئی ہیں ۔رحیم یار خان میں چلائے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کی افادیت بھی باقی ملک کی نسبت زیادہ ہے ۔عزت ماب شیخ خلیفہ سکول اپنی مثال آپ ہے جہاں پانچ سو سیٹوں کا ایک انتہائی شاندار آڈیٹوریم بھی ہے سکول میں کیمبریج سسٹم رائج ہے ۔اسی طرح یہاں ایک ڈسپنسری بھی ہے جس کا مکمل خرچہ متحدہ عرب امارات اٹھاتا ہے یہاں غریب افراد کو مفت علاج کی سہولتیں دستیاب ہیں اور اس سے اندرونِ سندھ تک کے لوگ استفادہ کرتے ہیں ۔مقامی ائیرپورٹس ، محل اور گیسٹ ہاؤس سب اس بات کے غماز ہیں کہ ان کا انتظام بہتر ہاتھوں میں ہے ۔
چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط ارسال کیا گیا جس میں کہا گیا کہ چولستان جو رحیم یار خان اور بہاولپور کے اضلاع پر محیط ہے اس میں 27چیک پوسٹیں ایک پرائیویٹ آرمی کی جانب سے قائم کی گئی ہیں ان پوسٹوں کی تصویریں بھی ساتھ منسلک ہیں ۔شکار کی غرض سے یہ پرائیویٹ آرمی متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کی جانب سے تعینات کی گئی ہے جس کی سربراہی میجر (ر) عرفان کے ہاتھوں میں ہے ۔ایک اور خط جو کہ’’ ہیرالڈ‘‘ کو بھجوایا گیا۔اس کے مطابق اس پرائیویٹ آرمی نے چولستان کو 9سیکٹرز میں تقسیم کیا ہوا ہے ۔ تمام چیک پوسٹیں ان سڑکوں پر قائم ہیں جو رحیم یار خان اور بہاولپور میں قائم ابو ظہبی کے حکمرانوں کے محلوں ، صحرا میں قائم دو ائیر سٹرپس الحبیب اور الگابا ،کے راستوں کو جاتی ہیں ۔یہاں پک اپ اور جیپوں پر مسلسل گشت کیا جاتا ہے ۔چولستان میں بڑی تعداد میں سڑکیں ابو ظہبی کے حکمرانوں کی جانب سے بنائی گئی ہیں جہاں پر سنگِ میل بھی عربی میں لکھے گئے ہیں ۔جب شکار کا موسم ہوتو مقامی افراد کا داخلہ ان سڑکوں پر محدود ہوجا تا ہے ۔تاہم Houbara Fondation Internationalکے حکام اس بات کی نفی کرتے ہیں ان کے بقول علاقے میں واحد چیک پوسٹ پنجاب کے محکمہ جنگلی حیات کی ہے جہاں سرکاری لوگ تعینات ہیں ۔خط میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے تاہم یہ کہا گیا ہے کہ سرکاری حکام کی حیثیت محض دکھاوے کی ہے اور اصل کنٹرول جنگلی حیات کے محکمے کے پاس نہیں بلکہ پرائیویٹ لوگوں کے پاس ہے ۔علاقے میں پرائیویٹ لوگوں کے گشت کے شواہد موجود ہیں ایک وڈیو میں دکھایا جاتا ہے کہ محکمہ جنگلی حیات کے لوگوں نے ایک مقامی فرد کو بازؤوں سے پکڑ رکھا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ کیوں ؟ایک اور وڈیو میں کچھ مسلح لوگ ایک دیہاتی کا موبائل فون چیک کر رہے ہیں کہ کہیں اس میں تلور کے شکار کی تصویریں تو موجود نہیں ہیں ۔خط کے مندرجات میں ہے کہ ایک مقامی جاگیردار کو بجنوت گاؤں میں قائم چیک پوسٹ پر لے جا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ ایک بوڑھے چولستانی مرید لاس کو پرائیویٹ فورس نے اغوا کیا ۔حاجی گل مہر کے بیٹے کو بھی اغوا کر کے تین روز تک حراست میں رکھا گیا اور اغوا کاروں نے اس کی جیب سے آٹھ ہزار بھی نکال لئے ۔اس خط میں متحدہ عرب امارات کے شیخوں کی دیگر غلط کاریوں کا پردہ بھی چاک کیا گیا ۔ان دوخطوں کا لکھاری جو اپنانام خفیہ رکھنا چاہتا ہے اس کے بقول یہاں صرف اغوا ہی نہیں بلکہ جبر ی زیادتیاں اور قتل کے واقعات بھی ہو چکے ہیں ۔اس نے بتایا کہ ایک واقعہ تو تقریباً یہاں سب کو معلوم ہے کہ ایک چیک پوسٹ پر احمد پور شرقیہ کے سرکاری ہسپتال میں تعینات دو ڈاکٹروں کو گولی مار دی گئی ۔1980میں محل کا ایک سپروائزر خان پور سے تین نوجوان لڑکیوں کو محل لے گیا جہاں ان کے ساتھ جبری زیادتی کی گئی مگر اس معاملے کو بھی دبا دیا گیا ۔خط میں کہا گیا کہ رحیم یار خان کی ایک نہر کو بند کر کے اس کا رخ ابو ظہبی کے ملکیتی فارم کی جانب موڑ دیا گیا ۔
عبد الرب فاروقی جو کہ جاگ ویلفیئر موومنٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں جس کا قیام رحیم یار خان میں 1997میں عمل میں لایا گیا تھاوہ بہت کھلے انداز میں تنقید کرتے ہیں ان کاماننا ہے کہ علاقے میں شیخوں کی موجودگی کے اثرات اچھے نہیں ہیں ۔فاروقی یونیسف میں چائلڈ پروٹیکشن کنسلٹنٹ بھی ہیں۔ ان کا دعوی ٰ ہے کہ رحیم یار خان سے 1970سے 2005 کے دوران 15000بچوں کو اونٹوں کی دوڑ کے لئے متحدہ عرب امارات لے جایا گیا ان کے ساتھ ہزاروں عورتیں بھی تھیں جہاں اونٹوں کے مالکان نے ان کے ساتھ جبری زیادتیاں بھی کیں اور وہاں ان عورتوں نے ان کے ناجائز بچوں کو بھی جنم دیا ۔
منیر ان الزامات کو مکمل رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں ان کا متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کے ترقیاتی منصوبوں سے کوئی سروکار نہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ چولستان میں کوئی پرائیویٹ آرمی نہیں ہے اگر اس کو سیکٹروں میں تقسیم کیا بھی گیا ہے تو ا س کا مقصد کنٹرول نہیں بلکہ بہتر نیوی گیشن ہے ۔انہوں نے کہا کہ مقامی افراد کو محکمہ جنگلی حیات کے لوگ چیک کرتے ہیں تاکہ وہ تلور کا غیر قانونی شکار نہ کر سکیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ صحرا میں جا کر ابو ظہبی یادوسرے عرب ممالک کے ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیں تو آپ یہ یقین نہیں کریں گے کہ کوئی پرائیویٹ آرمی لوگوں کو ڈرا دھمکا رہی ہے۔ عرب تومقامی افراد کو سہولیات فراہم کر رہے ہیں نہ کہ ان کی زندگیاں مشکل بنا رہے ہیں ۔
منیر کا کہنا ہے کہ جہاں تک اونٹوں کی دوڑ کا معاملہ ہے بچوں کی سمگلنگ غیر قانونی نہیں ہوئی نہ ایسا ماضی میں ہوا نہ حال میں ہو رہا ہے ۔متحدہ عرب امارات میں اونٹوں کی دوڑ میں جانے والے بچوں کو ان کے والدین کی منشا سے لے جایا گیا جس کے عوض انہیں اچھا خاصا معاوضہ ملا ۔جہاں تک قتل ، جبری زیادتیوں اور عورتوں پر تشدد کا معاملہ ہے یہ من گھڑت کہانیاں ہیں جن میں کوئی حقیقت نہیں ہے یہ کہانیاں ان کی جانب سے پھیلائی گئی ہیں جن کو شکار کی اجازت نہیں ہے ۔اس لئے وہ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کے خلاف کہانیاں گھڑتے ہیں حالانکہ انہوں نے پاکستان کے لئے بہت کچھ کیا ہے ۔
اس سال جنوری میں رحیم یار خان میں شیخ زید ائیر پورٹ کے حکام نے ایک فیکس پیغام موصول کیا جس میں مطلع کیا گیا کہ ایک خصوصی طیارہ چودہ مسافروں کو لے کر آرہا ہے جو کہ شیخ کی شکاری ٹیم کا ہراول دستہ ہیں اس میں سات گارڈز اور باقی ویٹرز ہیں جو تمام بھارتی شہری ہیں ۔جب فیکس آئی تو جہاز لینڈ کرنے ہی والا تھا ۔ائیر ہورٹ پر موجود ایوی ایشن کے حکام نے ائیر پورٹ کی روشنیاں بند کر دیں اور جہاز سے کہا گیا کہ سیکورٹی کا مسئلہ ہے ا س لئے جہاز واپس چلا جائے ۔کچھ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمام چودہ افراد کا تعلق بھارتی فوج سے تھالیکن ا س کی تصدیق نہیں ہوئی ۔ایک بات یہ بھی سنی گئی کہ جہاز نے لینڈ تو کیا مگر بھارتی شہریوں کو جہاز سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔جہاز نے چند گھنٹے انتظار کیا ا س دوران متحدہ عرب امارات کے سفارتخانے نے پاکستانی حکام سے بات چیت کی جس کے بعد جہاز مسافروں کو لے کر واپس روانہ ہو گیا ۔اس سے پہلے اسی ماہ متحدہ عرب امارات کے ایک شیخ کی ایڈوانس ٹیم میں شامل چھ بھارتی شہری بدین پہنچے جو سیکورٹی کلیئرنس کے بغیر ائیر پورٹ سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔
چوہدری نثار علی خان نے اس سال 25اپریل کو پاکستان میں شکار کرنے والے غیر ملکیوں کے لئے قوائد و ضوابط کا اعلان کیا ۔ڈان اخبار کے مطابق نئے ضابطوں کے تحت غیر ملکی شخصیات اپنی آمد سے 72گھنٹے پہلے تمام معلومات متعلقہ حکام کو دینے کی پابند ہیں ۔حکومت نے لینڈ پرمٹس کا اجراء بھی روک دیا یہ پرمٹس ایک طرح سے 72گھنٹوں کا ویزہ ہوتا ہے جو آمد پر دیا جاتاہے اب وہ تمام افراد جو شکار کی غرض سے پاکستان آنا چاہتے ہیں وہ آنے سے پہلے ویزہ حاصل کرنے کے پابند ہوں گے ۔ایف آئی اے ، اینٹی نارکوٹکس فورس ،پاکستان کسٹم اور مقامی انتظامیہ شکاریوں کو امیگریشن ،کسٹم اور سیکورٹی سمیت دیگر سہولیات فراہم کریں گے ۔
وزارتِ خارجہ کے پروٹوکول ڈویژن کی ذمہ داریاں تین قسم کی ہیں ۔ایک تو وہ غیر ملکی شخصیات کو آمد پر پروٹو کول فراہم کرے ان کے سفارتی مشنوں کو سیکورٹی اور گاڑیاں فراہم کرے ۔اس کے علاوہ غیر ملکی سربراہوں کو پاکستان میں شکار کے خصوصی پرمٹس بھی جاری کرے ۔عالمی تنظیم IUCNکے پاکستان میں نمائندہ محموداختر چیمہ کہتے ہیں ’’یہ پرمٹس صوبوں کی جنگلی حیات کے تحفظ کے قوانین میں نرمی برتتے ہوئے جاری کئے جاتے ہیں کیونکہ خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات ہیں ‘‘۔
شاہی شخصیات وزیر اعظم کے دفتر میں رابطہ کرتی ہیں جو وزارتِ خارجہ کو پرمٹس کے اجراء کے احکامات جاری کرتا ہے ۔پرمٹ میں شکار کے مقامات ،کتنے تلوروں کا شکار کیا جا سکتا ہے ،کتنے عقاب ساتھ لانے کی اجازت ہو گی ، شکار کے لئے کہاں جانے کی اجازت ہے اور کہاں نہیں ،یہ سب کچھ پرمٹ پر درج ہوتا ہے ۔اسی حساب سے سیکورٹی کے انتظامات کئے جاتے ہیں ۔جب پرمٹس جاری ہونے کے بعد غیر ملکی حکام کے حوالے ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد پروٹوکول ڈویژن ، کسٹم اور امیگریشن کے محکموں کا کام شروع ہو جاتا ہے ۔پاکستان میں جو بھی عقاب شکاری ساتھ لاتے ہیں اس کا اپنا پاسپورٹ ہوتا ہے تاکہ یہ یقین دہانی حاصل کی جا سکے کہ اتنے ہی عقاب واپس جا رہے ہیں جتنے لائے گئے تھے ۔شکاریوں کے ساتھ آنے والے سٹاف اور سازو سامان کو بھی انہی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے چاہے وہ کاغذوں کی حدتک ہی کیوں نہ ہو۔
کئی شکاری جماعتیں اپنے پرائیویٹ جہازوں پر پرائیویٹ ائیر سٹرپس پر اترتی ہیں ۔یہ واضح نہیں کہ وہاں امیگریشن اور کسٹم کے انتظامات ہوتے ہیں یا نہیں اور یہ کتنے مؤثر ہوتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ ایک ایسے پرندے کے شکار کا پرمٹ پاکستان کیسے جاری کر سکتا جس کو مارنے کا اختیار خود پاکستانیوں کے پا س نہیں ہے ؟
Houbara Fondation Internationalکی ایک رپورٹ کے مطابق امیر عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات ضروری ہیں اور ایسے پرمٹس کے ذریعے پاکستان عرب بادشاہوں کو خوش رکھ کر معاشی مفادات حاصل کر سکتا ہے ۔چونکہ ان ممالک کے پاس کافی پیسہ ہے اور ان کے حکام ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ کہاں وہ محفوظ اور منافع بخش سرمایہ کاری کر سکتے ہیں ۔مثال کے طور پر صرف ابو ظہبی کے پاس ایک کھرب ڈالر کے فارن ریزرو ہیں سعودی عرب کے پاس آٹھ سو ارب ڈالر ہیں ۔قطر کے پاس دنیا میں گیس کے سب سے بڑے ذخائر ہیں ۔سعودی عرب کے پاس تیل کے سب سے بڑے ذخائر ہیں ۔دوبئی ایک بڑے معاشی مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے ۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان ممالک میں پاکستانی مصنوعات کی بھی بڑی کھپت ہے ۔پاکستان نے جدید ٹینکس اور جے ایف 17طیارے بنا لئے ہیں جن کے خریدار ممکنہ طور پر یہی ممالک ہو سکتے ہیں۔رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ ان بادشاہوں کے پاس شکار کے لئے کئی ممالک کے دعوت نامے موجود ہیں اور یہ پاکستان کی بد قسمتی ہو گی کہ یہ بادشاہ اور ان کے خاندان پاکستان میں شکار کے اپنے پسندیدہ مقامات تک نہ آسکیں ۔
کمال الدین کا کہنا ہے کہ عرب شکاری صوبائی محکمہ جنگلات کوفنڈز اور وسائل فراہم کرتے ہیں ۔ہر شکاری جماعت اپنے ساتھ کم از کم پندرہ گاڑیاں بھی لاتی ہے جن کو گشت کے لئے محکمہ جنگلی حیات کے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں جن سے نہ صرف تلور بلکہ ہرن اور دوسرے جانوروں کی افزائش میں بھی مدد ملتی ہے ۔
مختار احمد کے بقول اگر یہ انتظامات نہ کئے جائیں تو پاکستان میں غیر قانونی شکارکی وجہ سے تلور کی تعداد کم ہوجائے ۔پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں غیر قانونی شکار ایک بڑا خطرہ ہے ۔ایک زندہ تلور کی قیمت 35ہزار تک ہے ۔غیر قانونی شکار کرنے والے ان تلوروں کو متحدہ عرب امارات میں فروخت کرتے ہیں جہاں عقابوں کو شکار میں تربیت دینے کے لئے ان کو استعمال کیا جاتا ہے تلور کے گوشت کو بھی بیش قیمت تصور کیا جاتا ہے ۔
Houbara Fondation Internationalکا خیال ہے کہ عرب شیخوں کو شکار کے لائسینس کے ساتھ پاکستان کے معاشی اور سفارتی مفادات وابستہ ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ عرب شکاریوں کو اپنے عقابوں کے ذریعے تلوروں کو مروانے سے کیا حاصل ہوتا ہے یا دوسرے لفظوں میں امیر عرب شیخ اپنے شکار کے بارے میں اتنے سنجیدہ کیوں ہیں ؟
کمال الدین کے بقول عرب بالخصوص متحدہ عرب امارات ہمارے احسان مند ہیں کہ پاکستان میں ان کی دیکھ بھال ہوتی ہے وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں ان کا بینکنگ سسٹم BCCIنے بنایا تھا ۔کمال الدین کے خیال میں اس کی ایک وجہ ان کی اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش ہے نہ ان کے پاس ایٹمی طاقت ہے نہ وہ اتنی بڑی فوج رکھتے ہیں ۔اس لئے وہ پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں ۔دنیا جانتی ہے کہ ہم مقابلہ کرنا جانتے ہیں اس لئے وہ کسی بھی ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر ہماری جانب دیکھتے ہیں ۔
کمال الدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ قومی سلامتی اور سفارتی تعلقات کی اس صورتحال سے کچھ طاقتیں خوش نہیں ہیں اس لئے جب سپریم کورٹ نے 2015میں تلور کے شکار پر پابندی عائد کی تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا بھارت ہمیں سفارتی طور پر تنہا کرنے کے لئے عربوں پر کام کر رہا ہے اگر بھارت ہمارے اتحادیوں کے ساتھ ہمارے تنازعات بڑھائے گا تو یہ ا س کے لئے ایک سہل راستہ ہے ۔
سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ نے تلور کے شکار پر پابندی کی درخواستوں کی سماعت کی اور اپنا فیصلہ 19اگست 2015کو سنایا اس کے دو روز بعد بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا ۔بینچ نے قرار دیا کہ نہ ہی وفاق اور نہ ہی صوبے تلور کے شکار کے لائسنس جاری کرنے کے مجاز ہیں ۔ججوں نے وفاقی حکومت سے کہا کہ وہ ایک عالمی معاہدوں Endangered Species of Flora and FaunyاورConvention on Conservation of Migratory Species کا دستخط کنندہ ہے جس کے تحت ان کی پاسداری لازمی ہے ۔اس لئے عدالت نے ان تمام جانوروں اور پرندوں کے شکار پر پابندی لگا دی جن کی نسل معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے ۔
عدالت کے فیصلے سے سب کو خوشی نہیں ہوئی بہاولپور اور رحیم یار خان میں کچھ مقامی افراد نے شکار پر پابندی کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔بالخصوص رحیم یارخان کے احتجاجی مظاہرین نے کہا کہ عربوں نے یہاں کئی ترقیاتی کام کروائے اور علاقے کے لوگوں کو روزگار دیا ۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بھی اس فیصلے کو چیلنج کیا جس پر سپریم کورٹ نے ایک بڑا بینچ بنایا جس نے 22جنوری 2016کو شکار پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ سنایا فیصلے میں کہا گیا کہ عالمی معاہدے پاکستان میں شکار پر پابندی کانہیں کہتے بلکہ یہ معاہدے ان ممالک کو پابند کرتے ہیں کہ وہ اس جانب کسی متفقہ لائحہ عمل تک پہنچیں ۔اس لئے یہ معاہدے تلور کے شکار کے راستے میں حائل نہیں ہیں کیونکہ یہاں مسئلہ شکار کا ہے تجارت کا نہیں ۔بینچ نے یہ بھی کہاکہ پاکستان میں ایساکوئی قانون نہیں ہے جو مستقل طور پر شکار پر پابندی عائد کرتا ہو تاہم ایک جج نے کہا پاکستان شکار کے حوالے سے قواعد و ضوابط بنائے تاکہ ایک حد سے زیادہ شکار نہ ہو چونکہ تلور کے شکار پر وزارت خارجہ کے پاس کوئی اختیار نہیں اس لئے ضوابط بھی وہ نہیں بنا سکتی ۔تاہم دیگر ججوں نے ا س حوالے سے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ ابہام ابھی تک برقرار ہے کہ اس سلسلے میں اصل اختیار کس کو حاصل ہے ۔
ایڈووکیٹ سردار کلیم الیاس جنہوں نے 2013میں لاہور ہائی کورٹ میں تلور کے شکار کے خلاف درخواست دائر کی ان کا کہنا ہے کہ شکار کے بارے میں ضابطے اور طریقہ کار صوبائی حکومتوں کا دائرہ کار ہے وزراتِ خارجہ اگر اس مسئلے میں ٹانگ اڑائے گی تو وہ غیر قانونی ہو گا ۔الیاس کے بقول صوبائی حکومت ایک ہی معاملے کو جو مقامی افراد کے لئے غیر قانونی ہو اس کو غیر ملکی افراد کے لئے قانونی کیسے بنا سکتی ہے ؟لاہور ہائی کورٹ نے ا س بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں دیا حالانکہ اس کے چیف جسٹس نے ایک بار کہا تھا کہ تلور کے شکار کی اجازت صرف اس صورت میں ہونی چاہئے جب اس کی افزائش محفوظ ہو ۔
پنجاب کے محکمہ جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ تلور کی آبادی بڑھ رہی ہے ۔سندھ کے محکمے کا کہنا ہے کہ یہ آبادی برقرار ہے۔دونوں محکموں نے پاکستان میں تلور کی تعداد کا جائزہ لینے کے لئے تفصیلی سروے کئے ہیں اور اس کام پر کئی ماہ صرف کئے اس دوران وہ ہر اس مقام تک گئے جہاں تلور موجودہو سکتے تھے ۔کمال الدین کا کہنا ہے کہ Houbara Fondation International نے اس سلسلے میں ان کے ساتھ تعاون کیا ۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ چولستان میں 2012سے2015کے دوران تلوروں کی تعداد میں 10.11فیصد اضافہ ہوا 2012میں ان کی تعداد 1680تھی جو 2015میں بڑھ کر 1850ہو گئی ۔ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے اضلاع میں ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جہاں 2012میں 1512تلوروں کی نشاندہی ہوئی تھی جبکہ 2010میں یہ تعداد 279تھی۔سندھ کے محکمہ جنگی حیات کے مطابق 2012-13میں صوبے میں 8100تلور آئے جن میں سے 690شکار کئے گئے اور7410واپس چلے گئے ۔2014-15میں6350تلورآئے جن میں سے 580شکار کئے گئے جبکہ5770واپس چلے گئے ۔حکام کے مطابق سندھ میں تلوروں کی آمد میں کمی شکار کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ نامناسب موسمیاتی تبدیلیاں ا س کی وجہ بنیں ۔کمال الدین کے بقول ’’اگر پاکستان میں بارش زیادہ ہو گی تو پاکستان میں زیادہ پرندے آئیں گے ‘‘۔
Houbara Fondation International کے حکام کے مطابق اس سال شکار کے آخری موسم میں دوبئی کے شیخ حمدان بن محمد بن رشید المکتوم نے بہاولپور میں 120تلوروں کا شکار کیا اور اس کے عوض انہوں نے حکومتِ پاکستان کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے 87لاکھ روپے ادا کئے ۔تاہم سرکاری طور پر ا س کی وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ رقم کس مد میں وصول کی گئی کیونکہ سرکاری طور پر تلور کے شکار کی کوئی فیس نہیں رکھی گئی ۔تاہم شیخ مکتوم نے جتنے تلوروں کا شکار کیا وہ قواعد کی خلاف ورزی ہے کیونکہ کوئی بھی شکاری جماعت دس رو زکے اندر سو سے زائد تلوروں کا شکار نہیں کر سکتی ۔
تاہم یہ تعداد سرکاری حکام کے اعداد و شمار سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ۔پنجاب کے محکمہ جنگلی حیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد نعیم بھٹی کے دستخطوں سے جاری ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق اس سال بہاولپور میں صرف 57تلوروں کا شکار ہوا ۔اس لئے اس تضاد نے کئی سوالوں کو جنم دے دیا ہے ۔حقیقت کیا ہے اس کی کھوج ضروری ہے ۔
یہ اعداد و شمار اس لئے بھی صحیح نہیں ہیں کیونکہ اس سال شکار کے موسم میں صرف بہاولپور میں شیخ مکتوم اکیلا شکاری نہیں آیا بلکہ کئی دوسرے لوگ بھی آئے جنہوں نے مقررہ حد سے زیادہ شکار کیا اس لئے یہ تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے ۔
کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں تلوروں کی تعداد کے حوالے سے جو سروے ہوئے وہ بھی غلط ہیں اگراس حوالے سے غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو ایک بالکل مختلف صورتحال سامنے آتی ہے ۔2016میں شائع ہونے والی IUCNکی ریڈ بک جس میں ان پرندوں کی تفصیلات دی گئی ہیں جن کی نسلیں خطرات سے دوچار ہیں اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تلوروں کے بے پناہ شکار کی بدولت گزشتہ بیس سالوں کے دوران ان کی تعداد خاصی کم ہو چکی ہے اور ان کی افزائش کی شرح بھی گر گئی ہے تاہم رپورٹ میں تلوروں کو خطرے سے ایک درجے کم پر رکھا گیا ہے ۔رپورٹ کے مطابق دنیا میں تلوروں کی کل تعداد 78960سے97000کے درمیان ہے تاہم رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ا س تعداد میں کمی بیشی ممکن ہے ۔
برڈ لائف انٹرنیشنل جو کہ دنیا کے 120ممالک میں مصروفِ عمل ہے اس کے مطابق دنیا کے کچھ خطوں میں تلوروں کی تعداد مسلسل کمی کا شکار ہے قازقستان جو کہ دنیا بھر میں تلوروں کی مجموعی تعداد میں سے نصف کا مسکن ہے وہاں ان کی آبادی 26-36فیصد کم ہو گئی ہے ۔یہی حال ایران کا ہے کیونکہ عراق میں ان کا بے پناہ شکار ہوا ہے ۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں تلوروں کی تعداد میں 30-49فیصد کمی ہوئی ہے ۔
Houbara Fondation International کا قیام لاہور میں 1995میں عمل میں آیا تھا جس کے پیچھے ایک کمپنی سیکورٹی کنسلٹنس پرائیویٹ لمیٹڈ ہے ۔جس کے ملازمین کی تعداد 750کے قریب ہے زیادہ تر کا تعلق افواجِ پاکستان سے رہا ہے ۔یہ دونوں کمپنیاں ایک ہی عمارت میں اپر مال لاہور میں کام کر رہی ہیں ۔فاؤنڈیشن کے دو مقاصد ہیں :ایک متحدہ عرب امارات کی نامور شخصیات سے مل کر ملکی قوانین کی پاسداری اور دوسرا وہ علاقے جہاں عرب شخصیات آتی ہیں وہاں فلاحی منصوبوں کی بر وقت تکمیل ۔پاکستان ان منصوبوں کے لئے زمین فراہم کرتا ہے اور عرب وسائل فراہم کرتے ہیں ۔فاؤنڈیشن کسی لین دین میں نہیں پڑتی بلکہ اس کا کوئی بنک اکاؤنٹ بھی نہیں ہے ۔
کمال الدین جو کہ فاؤنڈیشن کے سینئر ممبر ہونے کے ساتھ سیکورٹی اینڈ کنسلٹنٹس پرائیویٹ لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں وہ ان اعداد و شمار کو تسلیم نہیں کرتے جن میں پاکستان میں تلوروں کی تعداد میں کمی کو ظاہر کیا گیا ہے ان کے کہنا ہے کہ’’ جو لوگ کہتے ہیں کہ تلوروں کی تعداد کم ہوگئی ہے وہ ا س کی وجہ پوچھتے ہیں بالخصوص پاکستان میں ‘‘ ۔
وہ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کے دوران پرندوں کی تعداد کیسے شمار کی جا سکتی ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ سروے والوں کو بیک وقت وسطی ایشیا ، افغانستان ، ایران ، بلوچستان ، سندھ اور پنجاب میں سروے کرنا پڑیں گے جو کہ ممکن نہیں ہے ۔کمال الدین کہتے ہیں کہ انہوں نے آج تک نہیں سنا کہ پاکستان میں کوئی تنظیم سروے کر رہی ہے ۔متحدہ عرب امارات کے حکمران ان تنظیموں کے ایجنڈے سے متفق ہیں ۔شیخ زید نے تو 1970کی دہائی میں ہی کہہ دیا تھا کہ ان پرندوں کی تعداد کم ہو رہی ہے انہوں نے تلوروں کی نسل کو محفوظ بنانے کے لئے ’’پائیدار شکار ‘‘ کے نام سے ایک پروگرام بھی شروع کیا جو بعد ازاں تلوروں کے تحفظ کے عالمی فنڈ میں بدل گیا۔اس فنڈ سے تلوروں کی افزائش کی جاتی ہے ۔فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 2016میں فارمز کے ذریعے 53743تلوروں کی افزائش کی گئی 2014میں یہ تعداد 46014تھی ۔33685تلوروں کو ان کے قدرتی ماحول میں چھوڑا گیا ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جب تلوروں کوقدرتی ماحول میں چھوڑا جاتا ہے تو کتنے اپنی زندگی برقرار رکھ پاتے ہیں ۔تلوروں کی افزائش کے عالمی فنڈ کے ڈائریکٹر جنرل محمد صالح البدیشی کے مطابق ان کی افزائش کی شرح 30فیصد ہے جو ان کے خیال میں حوصلہ افزا ہے ۔تاہم IUCNکے مطابق تلوروں کا ان کے ماحول میں تحفظ ان کی مصنوعی افزائش سے کہیں زیادہ مفید ہے ۔
ہر مادہ تلور سال میں تین انڈے دیتی ہے اگر ان کے تحفظ کے اقدامات کئے جائیں تو یہ ان کی مصنوعی افزائش سے کہیں زیادہ سود مند ہو سکتا ہے ۔اس لئے زیادہ موزوں ہو گا کہ ان کے شکار پر پابندی عائد کی جائے ۔
یکم مارچ 2017کی شام کو تلوروں کی افزائش کے عالمی فنڈ کی چار رکنی ٹیم لاہور ائیر پورٹ پر پہنچی ۔یہ اپنے ساتھ تلوروں کے 500بچے لائی ۔اس ٹیم کی قیادت البیدانی کر رہے تھے ۔وہ اسی رات بہاولپور سے چند کلومیٹر جنوب میں لال سوہانراکے مقام پر تلوروں کے ایک تحقیقی سینٹر Sheikh Muhammad Bin Zayed Deer Breeding and Houbara Reserch Centre روانہ ہوئے ۔علی الصبح وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے ۔یہ ریسرچ سینٹر لمبائی میں پندرہ کلومیٹر اور چوڑائی میں چار کلومیٹر پر محیط ہے جس کے گرد باڑ لگائی گئی ہے اس کے دو دروازے ہیں ۔ سیکورٹی ٹاورز سے علاقے کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے ۔سرکاری حکام اور میڈیا کو تلوروں کو آزاد کرنے کے موقع پر بلایا گیا تھا ۔مقررہ وقت پر ایک ایک کر کے تلوروں کو آزاد فضا میں چھوڑ اگیا ۔کافی تلور اُڑ گئے کچھ گر کر قریبی جھاڑیوں میں روپوش ہو گئے ۔اس کے فوراً بعد ٹیم بہاولپور ائیر پورٹ پہنچی جہاں ا س نے رحیم یار خان کے لئے اڑان بھرنا تھی ۔جہاز تیار کھڑا تھا ۔ٹیم نے رحیم یار خان پہنچ کر بقیہ 300پرندوں کو آزاد کیا ۔صحرا میں جہا ں تلور آزاد کئے گئے وہاں پاکستان اور ابو ظہبی کے جھنڈے لگائے گئے تھے ۔جیسے سورج ڈھلنے لگا ایک ایک ایک کرکے پرندے چھوڑے گئے۔ ایک تلور جب پنجرے سے نکالا گیا تو وہ مر چکا تھا ۔تمام تلوروں کی ٹانگوں کے ساتھ ایک ٹریکنگ ڈیوائس لگائی گئی تھی ۔اگلے چند روز میں 70سے80تلور مر گئے کچھ دوسرے پرندوں کا لقمہ بنے اور کچھ گرمی برداشت نہ کر سکے ۔ جو باقی بچے انہیں ابو ظہبی کے شہزادے نے جو ایک روز بعد رحیم یار خان پہنچا تھا شکار کر لیا ۔
(بشکریہ ہیرلڈ: ترجمہ سجاداظہر)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...