پوٹھوہار، جہاں زندگی نے اپنا اولین گیت گایا

تہذیب و تاریخ

1,703

معروف صحافی اور شاعر انوار فطرت کہتے ہیں کہ پوٹھوہار وہ جگہ ہے جہاں زندگی نے اپنا اولین گیت گایا۔ خطہ پوٹھوہار کی پانچ لاکھ سال قدیم تاریخ کو انجینئر مالک اشتر نے اس مضمون کی صورت میں گویا ایک سمندر کوزے میں بند کردیا ہے۔ انجینئر مالک اشتر ایک کتاب ’’ٹیکسلا ٹائمز‘‘ کے مصنف بھی ہیں۔ آپ اس خطے کی تہذیب و تاریخ پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ تاریخ کے کئی کردار انہوں نے اپنے افسانوں میں زندہ کئے ہیں۔ تاریخ کو حال میں لا کر بیان کرنے کا ملکہ مالک اشتر کا خاصا ہے۔

پوٹھوار کی سرزمین جغرافیائی طور پر چار اطراف سے قدرتی حصار میں گھری ہوئی ہے۔مشرق میں دریائے جہلم اس کی حدود متعین کرتا ہے اور مغرب کی جانب ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں سے پھوٹنے والا مہان دریا سندھو(سندھ) صدیوں سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے،انہی دو دریاؤں کے درمیان کا علاقہ دوآبہ سندھ ساگر کے نام سے مشہور ہے۔شمال کی جانب کالا چٹا پہاڑ اور مارگلہ کے پہاڑی سلسلے ہیں جبکہ جنوبی سمت میں کوہستانِ نمک سینہ تانے کھڑا ہے اس طرح درمیان میں جو قطعہ ارض وجود میں آتا ہے وہ سطح مرتفع پوٹھوار کہلاتا ہے(1)۔

دفاعی نکتہ نظر سے اہم ان قدرتی رکاوٹوں نے اس خطے میں انسانی آباد کاری کی راہ میں اہم کردار ادا کیا ہے یہی وجہ تھی کہ سطح زمین کی بلندی، موافق موسمی حالات اور جنگلات کی کثرت نے قبل از تاریخ کے انسان کو یہاں بود و باش اختیار کرنے پر مجبور کیا۔یوں جنگلی حیات،وافر پانی کی موجودگی اور وسیع و عریض چراگاہوں کی وجہ سے زرعی معاشرے کی بنیاد پڑی۔

1928ء میں جیولاجیکل سروے آف انڈیا کے سربراہ مسٹر ڈی این واڈیا اور1930ء میں ژیل کیمرج ایکسپی ڈیشن نے دریائے سواں کی پٹی کے ساتھ قدیم دور کے پتھر کے تراشیدہ اوزار اور ہتھیار دریافت کیے جرمن محقق ڈی ٹیرا اور پیٹرسن نے بھی یہاں قدیم ترین انسانی عہد کا سراغ لگایا۔انہوں نے چونترا،اڈیالہ،ملک پور اور روات کے مقامات سے پتھر کے دور کے تقریباً تین لاکھ سال قدیم سنگی کلہاڑیاں ور تیز دھار شیشے دریافت کیے۔ڈاکٹر ڈی ٹیرہ کی رائے کے مطابق وادی سواں کی تاریخ بابل، نینوا، وادی سندھ، مصر اور یونان کی تہذیبوں سے بھی ہزاروں سال قدیم ہے(2)۔

انہوں نے روات کے قریب سے دریافت ہونے والی دو انسانی کھوپڑیوں پر تحقیق کی۔انHomo Sapiens کا تعلق پتھر کے جدید دور سے بتایا جاتا ہے یہ ڈھانچے5 سے10 ہزار سال قدیم ہیں(3)۔

1968ء میں آرکیالوجی آف پاکستان کے محکمے نے ایم اے حلیم کی رہنمائی میں ٹیکسلا میں سرائے کھولا کے قریب کھدائی کی اور ماقبل از تاریخ دور کا پتہ لگایا دریافت شدہ برتنوں اور ہتھیاروں پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ3100 قبل میح میں یہاں انسانی آبادی موجود تھی۔اس کے علاوہ ٹیکسلا میوزیم کی شمالی سمت میں دو فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہتھیال نامی مقام سے مٹی کے ایک ٹیلے کی کھدائی کے دوران2800 ق م سے2400ق م کے قدیم کوٹ ڈجین عہد کے آثار دریافت ہوئے ہیں جبکہ اوپر والی تہہ کا تعلق1200ق م سے800ق م کے گندھارا گورستانی عہد سے ہے(4)۔

پوٹھوار کی مختلف وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہیں۔بعض محققین بشمول ڈی این واڈیا کی رائے میں یہ’’پٹھ آر‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔’’پٹھ‘‘ بمعنی پیٹھ اور’’آر‘‘ مثل کے معنی میں آیا ہے یعنی پیٹھ کی طرح کا ابھار۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ لفظ پوٹھوار’’پوپ ہار‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے’’پھولوں کا ہار‘‘۔جب پرتھوی راج،شہاب الدین غوری کی افواج کا غزنی کی جانب تعاقب کرتے ہوئے پشاور تک گیا اور واپسی پر پوٹھوار سے گزر ہوا تو پھولی ہوئی سرسوں اور کھلے ہوئے خودرو پھول دیکھے تو بے ساختہ کہہ اٹھا ’’ایں ملک پوپ ہار است‘‘ یعنی یہ پھولوں کا دیس ہے۔ یہ خطہ’’پوٹا‘‘ دیوتا کی پرستش کے حوالے سے بھی مشہور تھا اس مناسبت سے اس کا نام پوٹھوار پڑ گیا ہوگا اس خطے میں بہنے والے بعض ندی نالوں کا رخ مشرق سے مغرب کی بجائے مغرب سے مشرق کی سمت ہے۔ شاید اس وجہ سے بھی پُٹھا(الٹا) اور ہاڑ(ندی نالے) کی باہمی اصطلاح پوٹھوار کے نام کی وجہ بن سکتی ہے(5)۔

یہاں بہنے والے مشہور دریاؤں میں سواں،کالس اور ہرو قابل ذکر ہیں جب کہ ندی نالوں کے حوالے سے نالہ لنگ،نالہ کورنگ،نالہ سرین،نالہ لئی،کس گلیانہ،نالہ دھمرا،نالہ کانسی وغیرہ کے نام گنوائے جاسکتے ہیں۔

خیال ہے کہ برصغیر کا قدیم ترین تہذیبی خطہ ہونے کے ناطے پوٹھوار سے ہی زراعت کا آغاز ہوا۔اس حساب سے سب سے پہلے گندم وغیرہ یہیں کاشت کی گئی تھی۔پیداوار کے لحاظ سے باجرہ کی فصل دوسرے نمبر پر ہے۔مونگ،ماش،مسور،موٹھ،چنے اور تل کی کاشت بھی ہوتی ہے جبکہ روغن دار اجناس میں سرسوں اور تارا میرا مشہور ہیں۔ تاہم مکئی کشمیر سے یہاں لا کر متعارف کرائی گئی تھی(6)۔

خطہ پوٹھوار میں مختلف اقسام کے درخت اگتے ہیں،  کبھی یہاں گھنے جنگلات کی بھرمار تھی۔ بابر نے ہاتھی اور گینڈے کے شکار کا تذکرہ کیا ہے(7)۔سکندر اعظم نے بھی ان جنگلات میں گینڈے کا شکار کھیلا تھا۔ تاہم آج پائے جانے والے درختوں میں شیشم، بکائن(دھریک)،بیری، کہو(جنگلی زیتون)،ڈھاک،اوکانہہ جبکہ پھلدار درختوں میں آم، لوکاٹ، جنگلی انار وغیرہ مشہور ہیں۔ چیڑ کے درخت پہاڑوں پر کثرت سے اگتے ہیں۔

ہندو اور بدھ مت کی عبادت گاہوں کے اطراف میں تالابوں کے کنارے اور قدیم راستوں کے ساتھ سستانے کیلئے برگد اور پیپل کے درخت بھی کثیر تعداد میں لگائے گئے۔درحقیقت یہ درخت وسطی ہندوستان سے لائے گئے تھے چونکہ ان کے پتے چوڑے ہوتے ہیں اس لئے انہیں پانی کی وافر مقدار درکار ہوتی ہے جبکہ پوٹھوار کو بارانی خطہ ہونے کے ناطے بارشوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اس لئے قدرتی طور پر یہاں چھوٹے پتوں والے درختوں کی بہتات ہے۔پیپل اور برگد کے درخت،مذہبی تقدس کی وجہ سے پوٹھوار میں متعارف کرائے گئے تھے۔جنگلات کی موجودگی نے جنگلی حیات کو پھلنے پھولنے میں خوب مدد دی۔چیل،چڑیا،کبوتر،فاختہ،مینا،کوے،نیل کینٹھ،ہدہد،طوطے،تیتر،بٹیر اور کوئل بھی راگ الاپتی نظر آتی ہیں۔

پوٹھوہار کا ماضی تہذیب و ثقافت اور دانش و حکمت سے عبارت ہے۔ یہاں اس دور میں بھی علم کی شمع روشن تھی جب باقی دنیا جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے تلے سانس لے رہی تھی اگر ہم اپنے حال کی شکستہ کڑیاں عہد رفتہ کے تاریخی سلسلے سے جوڑ لیں تو ایک سہانے مستقبل کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔

جنگلی جانوروں میں گیدڑ،سور،سیہہ،بجو،سانپ،نیولے،گلہریاں، بھیڑیئے،لومڑی، بندربکثرت پائے جاتے ہیں جبکہ ہرن اور اڑیال خال خال ہی رہ گئے ہیں۔پالتو مویشیوں میں بھینس، گائے، اونٹ،بکری اور گدھے قابل ذکر ہیں۔ میلوں ٹھیلوں میں بیل دوڑ منعقد کی جاتی ہے۔ مرغ بازی اور کتوں کی لڑائی کے مقابلے ہوتے ہیں۔سرزمین پوٹھوار پر انسانی ارتقاء صدیوں سے جاری ہے یقیناًاس کی تاریخ ٹیکسلا کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب پوٹھوار کی مرکزیت ٹیکسلا ہوئی تو اس سے سیاسی، اقتصادی، تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے ایک منفرد دور کی بنیاد پڑی اور اس خطے میں گندھارا کے نام سے نئی تہذیب کا آغاز ہوا۔

ابتداء میں دریائے سندھ کے دونوں اطراف کی سرزمین بشمول وادی پشاور(پرشاپورہ) چارسدہ(پشکلاوتی) سوات(ادیانہ) چھچھ اور پوٹھوار کا بالائی حصہ گندھارا کہلاتا تھا۔اس کا دارالخلافہ ٹیکسلا(تکشاسلہ) تھا اور یہاں راجا پکوساتی کی حکومت تھی۔چھٹی صدی قبل مسیح کے دیگر حکمران یعنی بہار(مگدھ) کا بادشاہ بمبی سار،اجین،مدھیا پردیش(اونتی) کا حاکم پرادیوت اور اودھ لکھنؤ(کوشالا) کا فرمانروا پرسین اجیت،راجہ پکوساتی کے ہم عصر تھے۔

ہٹخا منشی خاندان کے بادشاہ سائرس اعظم(559ق م) نے جب اپنی حکومت کو وسعت دی تو ٹیکسلا ایرانی عملداری میں آگیا۔دارا اوّل بہستان کے عہد میں(522 تا486ق م) میں گندھارا،سلطنت فارس کا20 واں صوبہ تھا۔ ایرانیوں نے یہاں آرائی زبان متعارف کرائی اسی دور میں ٹیکسلا میں خروشی رسم الخط کی بنیاد بھی رکھی گئی(8)۔

چوتھی صدی قبل مسیح میں مقامی حکمرانوں کی باہمی جنگ و جدل اور ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں راجا امبھی اقتدار پر قابض ہوگیا۔ ادھر بحیرہ روم کے اس پار یونان کی ریاستوں کو متحد کرنے کے بعد سکندر مقدونی کے دماغ میں دنیا کو فتح کرنے کا سودا سمایا اور وہ میدان مارتا ہوا ایران وارد ہوا۔داراء سوم کو شکست کا مزہ چکھانے کے بعد329ق م میں سیدھا کابل(افغانستان) پہنچا اور کوہ ہندو کش کو روندتا ہوا باجوڑ اور سوات کے راستے دریائے سندھ کو صوابی کے قریب ہنڈ کے مقام سے عبور کیا۔ٹیکسلا کے حکمران راجا امبھی نے سکندر اعظم کو خوش آمدید کہا اور طے شدہ صلح کے نتیجے میں شہر کے دروازے کھول دیئے اور دل کھول کر مہمانوں کی ضیافت کی۔ سکندر نے عسکری حکمت عملی کے مدنظر اور اپنے عقب کو مضبوط بنانے کیلئے فلپ ابن مچالٹس کو یونانی فوج کے ایک جتھے کے ہمراہ ٹیکسلا میں اپنا نائب مقرر کیا اور خود راجا پورس سے نمٹنے کیلئے مارگلہ کے راستے جہلم روانہ ہوگیا۔ ولڈیورنٹ کی تحقیق تو یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ راولپنڈی کے آس پاس سکندر اعظم کو مقامی سرداروں کی جانب سے بھی خاصی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا(9)۔

تیز بارشوں کی وجہ سے جہلم کا دریا خوب چڑھا ہوا تھا۔سکندر نے جلال پور کے نزدیک پڑاؤ ڈال دیا اور پھر ایک طوفانی رات کو دارا پور کے اطراف سے دریا عبور کرنے کے بعد دشمن کے سر پر جا پہنچا۔گھمسان کا رن پڑا اور بالآخر سکندر فتح یاب ہوا(۰۱)۔یونان کی اکیڈمی کا تعلیم یافتہ سکندر، زخمی پورس کی جواں مردی اور ہمت سے اس قدر متاثر ہوا کہ اُس کے اِس جملے پر کہ’’اس کے ساتھ بادشاہوں کی شان کے مطابق سلوک کیا جائے‘‘نہ صرف معاف کردیا بلکہ اس کی سلطنت بھی تحفے میں پیش کردی۔ سکندر نے ایک ماہ تک جہلم میں سفر کی تھکان دور کی ۔نئے شہروں کی بنیاد رکھی اور پھر فتح کے شادیانے بجاتا ملتان کی جانب بڑھ گیا۔

ادھر ٹیکسلا میں ایک سازش کے تحت یونانی جرنیل فلپ کو قتل کردیا گیا۔راجا امبھی اور پوڈیمس نے اقتدار آپس میں بانٹ لیا۔
سکندر کے ٹیکسلا میں قیام کے دوران کشمیر کا حکمران ابھی سارا اور موریہ حکومت کا بانی چندر گپت اس سے تفصیلی ملاقات کر چکے تھے چنانچہ سکندر کے رخصت ہوتے ہی چندر گپت نے اطراف کی حکومتوں سے سازباز کرکے مگدھ کے راجا نندا پر چڑھائی کردی اور بلاشرکت غیرے اقتدار پر قابض ہوگیا۔ان تمام محلاتی سازشوں اور حکمت عملیوں کو عملی جامہ پہنانے میں اسے ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والے اپنے معتمد خاص اور مشیر کوٹلیہ چانکیہ کی بھرپور معاونت حاصل رہی۔

305ق م میں یونانی جرنیل سلوکس نکالڑ نے گندھارا پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو چندر گپت نے اسے ایسی عبرت ناک شکست دی کہ وہ ہتک آمیز صلح پر مجبور ہو کر کوہ ہندو کش سے لے کر دریائے سندھ تک کے تمام علاقے سے دست بردار ہوگیا اور اپنی بیٹی بھی چندر گپت کے عقد میں دے دی ۔اس طرح موریہ خاندان کی سلطنت کی حدود افغانستان تک پھیل گئیں۔

298ق م میں چندر گپت کی وفات کے بعد اس کا بیٹا بندوسار تخت نشین ہوا۔274ق م میں بندوسار بھی دنیا سے کوچ گیا تو عنانِ اقتدار مہاراجا اشوک نے سنبھال لی۔

کلنگا کی جنگ کے دوران لاکھوں بے گناہ انسانوں کی ہلاکت نے اسے جنگ و جدل سے اچاٹ کردیا۔ یہی وہ فیصلہ کن مرحلہ تھا جب اشوک نے بدھ مت قبول کرلیا۔ یوں نئے مذہب کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی۔ اشوک کا دور خطہ پوٹھوار کیلئے زریں عہد ثابت ہوا۔ تمام گندھارا میں علم و فن کے دبستان کھل گئے۔متعدد اسٹوپوں کی تعمیر ہوئی۔ٹیکسلا کا دھرم راجیکا نامی اسٹوپ برصغیر کا قدیم ترین اسٹوپ شمار ہوتا ہے۔ اس میں مہاتما بدھ کے اصلی جسمانی تبرکات اور پھول دفن کئے گئے۔ مانکیالہ اسٹوپ کی تعمیر کا آغاز بھی اشوک نے کیا تاہم موجودہ تعمیر کا سہرا کنشک کے سر ہے اس نے اپنے گرو اپاگپت کی یادگار کے طور پر اسے منسوب کیا(11)۔ اشوک اعظم (274ق م تا237ق م) نے اپنی سلطنت کے دور افتادہ علاقوں میں پھیلی ہوئی چٹانوں پر سرکاری ہدایت نامے تحریر کیے اس دور میں چند فرامین مانسہرہ اور شہباز گڑھی میں آج بھی جوں کے توں موجود ہیں۔
اشوک کی آنکھیں بند ہوتے ہی موریہ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔

189ق م سے90ق م تک باختری یونانیوں نے تقریباً ایک صدی تک گندھارا پر حکومت کی۔ باختری حکمران ڈیمیٹیریس اوّل نے پرانے دارالحکومت بھڑماؤنڈ کی بجائے ٹیکسلا کے دوسرے شہر سرکپ کی اقلیدسی اصولوں پر بنیاد رکھی اور نیا تعمیراتی اسلوب متعارف کرایا۔

یونانیوں کے بعد ساکا یا سیتھین (90ق م تا25 عیسوی) کا دور آتا ہے یہ چینی نژاد تھے اور ترکمانستان اور چین کے سرحدی علاقے سے وارد ہوئے تھے۔ انہیں پارتھی یا پہلوی حملہ آوروں نے ٹیکسلا سے بے دخل کیا۔ 40 عیسوی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک حواری سینٹ تھوما(St.Thomas) تبلیغ کی غرض سے یہاں آئے اور پہلوی حکمران گونڈو فارسی سے ملاقات کی۔ 44عیسوی میں مشہور کرشماتی شخصیت والئی ٹیانا اپالونیس اور اس کے ہونہار شاگرد ڈیمسی نے بھی ٹیکسلا کی گلیوں میں اپنے قدموں سے رونق بخشی انہیں مقامی علماء سے تبادلہ خیال کا موقع ملا جس سے ان کے نظریات میں نئی جہت پیدا ہوئی۔

پہلوی حکومت کا خاتمہ کشان حکمران وائما کیڈفیزیز کے ہاتھوں انجام پایا اس نے سرکپ کی بجائے ہرو کے کنارے ٹیکسلا کا نیا شہر آباد کیا۔پہلی بار چاندی کی بجائے سونے کے سکوں کو رواج دیا گیا۔کنشک کے عہد میں گندھارا آرٹ ثریا کی انتہائی حدوں کو چھو رہا تھا۔مجسمہ سازی اور دیگر فنون لطیفہ نے فقید المثال ترقی کی نئی تاریخ رقم کی۔کشان حکمرانوں میں وسسکا،ہاسکا اور واسو دیو کے نام قابل ذکر ہیں۔

کشان کے بعد یہ خطہ ساسانیوں(350ء تا390ء)کے زیر اثر آگیا مگر پھر جلد ہی کیدار کشان جو اپنا حسب نسب کنشک سے جوڑتے تھے ان پر غالب آگئے ان کی حکومت390ء سے460ء تک محیط ہے یہ لوگ بھی بدھ مت کے پرچارک تھے۔مشہور چینی سیاح فاہیان(400عیسوی) اسی عہد میں ہندوستان آیا تھا۔

جب گندھارا کے علوم و فنون کا سورج عین نصف النہار پر جگمگا رہا تھا تو اسی دوران شمالی ترکمانستان سے سفید ہنوں(460ء تا470ء) کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر امڈ آیا اور جو کچھ بھی ان کے راستے میں آیا اس کو خس و خوشاک کی طرح اپنے ساتھ بہا کر لے گئے۔ٹیکسلا کی علمی درس گاہوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔گندھارا کی تمام خانقاہیں اور اسٹوپے جلا کر خاکستر کردیئے گئے۔ اس کے بعد ٹیکسلا کو ماضی کی یہ شان و شوکت پھر کبھی نصیب نہ ہوئی اور اس کا ذکر بھی اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت طاق نسیان ہوگیا اور یوں گویا خوبصورت انارکلی کو پتھر کی دیواروں میں چن کر ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا گیا۔

ہندوستان میں ہرش خاندان کا دور606ء تا647ء عیسوی پر محیط ہے۔ہرش وردھن،آدتیہ وردھن،راجیہ وردھن وغیرہ قابل ذکر حکمران تھے۔اس دور کے سکے بھی پوٹھوہار سے ملے ہیں۔یہ خطہ نویں صدی عیسوی میں کابل کی ترک شاہی حکومت کے زیر نگیں آگیا۔870عیسوی میں جب یعقوب الیاس نے کابل کے پایہ تخت پر قبضہ کیا تو ترک شاہی جو اپنے آپ کو کنشک کی نسل سے خیال کرتے تھے سمٹ کر اٹک کے قریب ہنڈ کے مقام پر منتقل ہوگئے۔880 عیسوی کے لگ بھگ ہندو شاہی حکمرانوں نے ترک شاہی کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ترک شاہی اور ہندو شاہی دونوں ہی ہندو مذہب کے پیروکار تھے۔اس طرح سرکاری سرپرستی ختم ہونے سے بدھ مت کا زوال ہوگیا اور پھر رفتہ رفتہ ہندوستان سے یکسر ہی معدوم ہوگیا۔

راجا پال کا خاندان ہی دراصل ہندو شاہیہ کہلاتا تھا یہ نسلاً بھٹی راجپوت تھے۔سبکتگین اور سلطان محمود غزنوی(973ء تا1030ء) کے ہاتھوں پال حکومت جو کہ راجا جے پال،انند پال،بھیم پال اور ترلوجن پال پر مشتمل تھی بتدریج اختتام پذیر ہوئی۔اس عہد کے مشہور مورخ ابو ریحان البیرونی نے قلعہ نند نا کی سائنسی لیبارٹری میں ہی دنیا کا محیط معلوم کیا تھا۔اس کے حساب کے مطابق یہ فاصلہ39805 کلو میٹر بنتا تھا جس میں آج کے جدید سائنسی دور کے ناپ تول کے مطابق محض 322 کلو میٹر کا فرق ہے۔ قلعہ نندنا چوآسیدن شاہ(چکوال) سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

البیرونی یہاں سلطان محمود غزنوی کے عہد میں1017ء میں آیا اس نے زمین کی گردش اور اس کے فرضی خطوط پر بھی سیر حاصل بحث کے علاوہ جدید سائنسی اصولوں کے مطابق طول بلد اور عرض بلد کی جانچ کی۔قدرتی چشموں کے (Hydrostatics) قانون کی وضاحت کے علاوہ کئی دھاتوں کے مخضوص اوزان سے دنیا کو روشناس کرایا(12)۔

فاتح ہند شہاب الدین غوری(1175ء تا1206ء) ہندوستان آنے کیلئے پوٹھوہار کے راستے کا انتخاب کرتاہے۔ 1206 میں پرتھوی راج کو فیصلہ کن شکست دینے کے بعد جب اس نے واپس غزنی کا قصد کیا تو اپنی فوج کے ہمراہ سوہاوہ سے13 کلو میٹر مشرقی جانب دھمیک کے مقام پر پڑاؤ کیا اور ایک شب جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو تاک میں بیٹھے دشمنوں نے شہاب الدین غوری کی زندگی کا چراغ ہمیشہ کیلئے گُل کردیا۔ دھمیک میں تعمیر کردہ ان کا شاندار مزار آج بھی مرجع خاص و عام ہے۔شہاب الدین غوری کو فدائی خان گکھڑ نے شہید کیا تھا (13) تاہم ابنِ خلدون اس روایت سے اختلاف کرتا ہے اس کے بقول شہاب الدین کی نعش تدفین کی غرض سے غزنی(افغانستان) لائی گئی تھی اور اسے مدرسہ شاہی کے احاطے میں سپرد خاک کیاگیا(14)۔

محمود غزنوی کے حملے کے بعد پوٹھوہار کا کشمیر سے الحاق ٹوٹ گیا۔ یہ گکھڑوں کی بھرپور مزاحمت کا ہی نتیجہ تھا کہ سلطان نے اس خطے کو اپنے معتمد خاص گوہر المعروف گکھڑین شاہ کے حوالے کردیا تھا(15) ۔دراصل ٹیکسلا کی مرکزیت چھن جانے سے پوٹھوہار کا خطہ بھی شکست و ریخت کا شکار رہا۔ہن قوم کے ہاتھوں تباہی و بربادی کے بعد تہذیبی زندگی کا فقدان تھا۔سلاطین دہلی کے عہد1206ء تا1526ء تک بھی اس خطے کی حیثیت نیم خود مختیارانہ ہی رہی۔ خشک سالی کے مسائل کی وجہ سے مالیہ کی صورت حال مخدوش تھی اور لوگ خود سر اور سرکش ہوچکے تھے۔ بیرونی حملہ آور اس علاقے کو اپنی آمدورفت کیلئے استعمال کرتے۔ مقامی لوگ شاہی فوج میں بھرتی ہو جاتے، یہ لوگ گاہے گاہے حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے اور لوٹ کھسوٹ کا بازار بھی گرم رکھتے۔

مغلیہ دور(1526ء تا1707ء) میں پوٹھوہار کے جنجوعہ اور گکھڑوں کے شاہی خاندان سے تعلقات استوار ہوئے اور انہوں نے اس کا ہر ممکن پاس بھی کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب شیر شاہ سوری(1540ء تا1545ء) نے مغل حکمران ہمایوں کو شکست سے دوچار کرکے خود ساختہ جلا وطنی پر مجبور کیا تو مغلوں سے ہمدردی رکھنے کی پاداش میں گکھڑوں کی سرکوبی کی گئی اور ان کی باغیانہ سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے1541ء میں دریائے جہلم کے ساتھ قلعہ روہتاس کی تعمیر کا آغاز ہوا۔جب ہمایوں ایرانی شہنشاہ طہماسپ کی پناہ میں تھا تو اسی دوران شیر شاہ کے بیٹے نے عظیم گکھڑ سردار سلطان سارنگ خان کو قتل کرادیا۔اس کی لاش قلعہ روات میں دفن کی گئی۔

تاریخ کی کتب سے روات کا قدیم نام رباط ثابت ہے جو رفتہ رفتہ روات کی صورت میں غلط العام ہوگیا۔راجہ رنجیت سنگھ کے وقائع نگار نے اس کا نام’’سرائے رواتاں‘‘ تحریر کیا ہے۔ربات عربی میں سرائے کو کہتے ہیں(16)۔

پوٹھوہار میں گکھڑوں کا عمل دخل دسویں صدی عیسوی لے کر1765ء کے عرصے تک تواتر سے نظر آتا ہے۔ تاریخ میں گکھڑ سرداروں کے جاری کردہ سکوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ اس ضمن میں امیر گل خان، محمد خان، سلطان سارنگ خان، سلطان آدم خان اور سردار مقرب خان کے نام قابل ذکر ہیں۔ سلطان مقرب خان اور احمد شاہ ابدالی(1748ء تا1767ء) نے مل کر سکھوں کے خلاف کئی معرکوں میں حصہ لیا اس کے دستے ہمیشہ احمد شاہ کی ہر اول فوج میں شامل رہے۔ 1765ء میں گوجر سنگھ بھنگی نے ساز باز کرکے گجرات کے قریب سلطان مقرب خان کو شکست سے دوچار کیا اور اس طرح سکھ،رفتہ رفتہ پوٹھوہار پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔انہوں نے پنڈ دادنخان میں سکے بنانے کی ایک ٹکسال بھی قائم کی(17)۔

سکھ شاہی کا خاتمہ راجہ رنجیت سنگھ کے مرنے کے دس سال بعد1849ء عیسوی میں انگریزوں کے ہاتھوں عمل میں آیا اور وہ لمحہ بڑا دل گیر تھا جب شیر سنگھ اور اس کے والد چھتر سنگھ نے جنرل گلبرٹ کو کرپانیں پیش کیں اور اپنی شکست کے پروانے پر دستخط ثبت کئے۔ اس طرح انگریز اس خطے کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔

انگریز نے اس خطے میں ریلوے لائن بچھائی،جرنیلی سڑک کو پختہ کیا۔ فوجی چھاؤنیاں بنوائیں،شہروں کی جدید بنیادوں پر تعمیر کی۔ شہری سہولتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسکول اور شفا خانے بھی بنوائے تاہم دیہاتوں میں ترقی کی شرح خاصی سست رہی۔ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھی پسماندگی دور کرنے کی کوئی حوصلہ افزا کوشش نہیں کی گئی شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ خطہ عسکری لحاظ سے افرادی قوت مہیا کرتا ہے اس لئے اسے جان بوجھ کر ترقی کے دھارے سے علیحدہ رکھا گیا ہے۔

تاریخی ورثے کے حوالے سے آج بھی اس خطے میں کئی قدیم مساجد، منادر اور قلعے دیکھے جاسکتے ہیں۔ راولپنڈی سے لہتراڑ کی جانب تقریباً40 کلو میٹر کے فاصلے پر پھروالہ نامی گاؤں میں ایک قلعہ موجود ہے اسے گکھڑ حکمران سلطان کائی گوہر نے10ویں صدی عیسوی میں ہندو شاہی خاندان کی باقیات پر دوبارہ تعمیر کیا تھا۔مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے بھی اس قلعے پر حملہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ تحصیل کہوٹہ میں ڈڈیال روڈ پر قلعہ دان گلی بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ چکوال سے13کلو میٹر دور کلر کہار، چوآسیدن شاہ روڈ پر قلعہ ملوٹ واقع ہے اس کے کئی برج اور دروازے اب بھی محفوظ ہیں۔ دریائے جہلم پر تعمیر شدہ منگلا ڈیم کی جنوبی جانب سلطان پور کے قلعے کی باقیات موجود ہیں۔ منگلا ڈیم کے شمال مشرقی کنارے پر قلعہ رام کے آثار نظروں کو دعوتِ نظارہ دیتے ہیں یہ قلعہ شری رام چندر کے نام کی مناسبت سے شہرت رکھتا ہے۔ منگلا ڈیم کی پہاڑی کے اوپر قلعہ منگلہ موجود ہے یہ قلعہ جاٹ اور گوجروں کی دیوی منگلہ کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔

قلعہ روہتاس کا ذکر شیر شاہ سوری کی تعمیرات کے حوالے سے آچکا ہے۔جہلم شہر سے16 کلو میٹر کے فاصلے پر ٹلہ نامی پہاڑی سلسلے میں ایک وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے دور سے دیکھنے پر یہ دریائے کہان کی نگرانی کرتا نظر آتا ہے۔ بے ترتیب دیواریں تقریباً4 کلو میٹر لمبی ہیں جن کے ساتھ68 برج تعمیر کیے گئے ہیں۔ قلعے کے اندر تین عدد سیڑھیوں والے کنویں(باولیاں) بھی موجود ہیں۔ قلعے میں رسائی کیلئے گیارہ دروازے بنائے گئے تھے۔رہائشی مکانوں کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت اور نہایت دیدہ زیب مسجد بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ دربارِ اکبری سے وابستہ جنرل مان سنگھ کے نام سے منسوب ایک خوبصورت حویلی بھی موجود ہے جو گاردا(Garuda)طرز تعمیر کا حسین نمونہ ہے۔ اس کی مرصع بالکونیاں اور ستون حویلی کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ مغل شہنشاہ اکبر اور جہانگیر اکثر اس قلعے میں قیام پذیر رہے۔تذکِ جہانگیری میں اس قلعے کا ذکر خاصی شد و مد سے آیا ہے۔

جہلم شہر سے25 کلو میٹر جنوب مغربی جانب ایک پہاڑی ٹیلے پر کبھی ٹلہ جوگیاں نامی بستی آباد تھی۔ ایک ہزار میٹر کی بلندی پر جوگیوں کی اس خانقاہ کی باقیات اب بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ جوگی،گورو گورکھ ناتھ کے پیروکارتھے اور کان چھدوا کر لکڑی کے بندے پہنتے، اسی مناسبت سے انہیں’’کن پٹھے‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ الیگزینڈر کنگھم کی رائے کے مطابق قدیم دور میں یہ ٹیلہ سورج دیوتا’’بل ناتھ‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔
پنجاب کی ایک لوک داستان کے مرکزی کردار رانجھا کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ ہیر کو زبردستی بیاہ دیئے جانے کے بعد وہ دل گرفتہ ہو کرٹلہ جوگیاں آگیا تھا اور بیراگیوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگا اور پھر ایک روز جوگیوں کے بھیس میں کانوں میں مندرے سجائے عشق کے لافانی گیت الاپتا ہوا ہیر کے کوچے میں دوبارہ جا نکلا(18)۔

مغلیہ عہد میں دریائے سندھ کے جنوب مشرقی کنارے پر تعمیر ہونے والا شہرہ آفاق قلعہ اٹک بھی فن تعمیر کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔علاوہ ازیں کوہستان نمک کی تاریخی حیثیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔

کلر کہار کی جانب سے آتے ہوئے چوآسیدن کے قصبے کے آغاز پر قدیم عمارتوں کے ایک ایسے جھرمٹ پر نظر پڑتی ہے جس کے سائے فیروزی مائل پانی کی جھیل میں جھلملاتے نظر آتے ہیں۔ یہی جگہ کٹاس راج کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ہندو روایت کے مطابق جب ستی دیوی اس دنیا سے رخصت ہوئی تو شیو دیوتا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے جس سے یہ جھیل وجود میں آئی اور’’کیٹا کش‘‘ یعنی آنکھ کا آنسو کے نام سے مشہور ہوگئی اور پھر صدیوں کا سفر طے کرنے کے بعد اب کٹاس کے نام سے شہرت رکھتی ہے(19)۔ اس کے علاوہ ہندو ادب کی شہرہ آفاق کتاب’’مہا بھارت‘‘ میں مذکور ہے کہ پانچ پانڈو بھائیوں نے بن باس کے دوران چار سال کا طویل عرصہ اسی مندر میں بسر کیا تھا آج بھی ہندو منادر کے علاوہ بدھ اور جین خانقاہیں یہاں موجود ہیں۔

پوٹھوہار میں قدیم راستوں کے اطراف میں باولیاں(سیڑھیوں والا کنواں)تعمیر کرنے کا رواج بھی عام تھا۔واہ،تھمالی اور کینتھلا کی باؤلیاں ماضی کے حکمرانوں کی سماجی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اس کے علاوہ مسافروں کو رات بسر کرنے یا فوجی چھاؤنیوں کی صورت میں ٹیکسلا،سنگ جانی،سرائے خربوزہ،حسن ابدال وغیرہ کی قدیم سرائیں اپنی طرز تعمیر کے لحاظ سے منفرد مقام رکھتی ہیں۔

حسن ابدال، شہزادی لالہ رخ کے مقبرے کی وجہ سے بھی شہرت رکھتاہے۔ جس کے متعلق یہ روایت مشہور ہے کہ وہ شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی ہے اونچے چبوترے پر سنگ ابری سے بنے مزار کے اطراف میں مربع شکل کی اونچی دیواریں رنگیں برگ و پیچاں سے منقش ہیں جبکہ چار کونوں میں ہشت پہلو برجیاں ایستادہ ہیں۔

آئر لینڈ میں پیدا ہونے والے مغنی اور شاعر طامس مور نے1817ء میں لالہ رخ کے نام سے ایک منظوم افسانہ لکھا جس نے یورپ بھر میں دھوم مچا دی۔ اس افسانے کا متعدد غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ افسانے کا مرکزی خیال اجمالاً کچھ یوں ہے کہ ملکِ بخارا کے حکمران ملک عبداللہ کو اورنگزیب عالمگیر نے شرفِ مہمانداری بخشا اور پھر حسن اخلاق سے متاثر ہو کر اپنی چھوٹی بیٹی لالہ رخ کی نسبت اس کے ولی عہد سے طے کردی جبکہ شادی کے دیگر مراحل کشمیر میں انجام پانا تھے۔ شاہ بخارا نے شہزادی کی دل جوئی کیلئے فرامرز نامی مغنی کی معیت میں خدام اور کنیزوں پر مشتمل قافلہ ترتیب دیا اور خود حج کی سعادت حاصل کرنے مکہ روانہ ہوگیا۔

فرامرز راستے بھر شہزادی کو گا گا کر کہانیاں سناتا رہا اس طرح لالہ رخ اس سے خاصی مانوس ہوگئی خصوصاً حسن ابدال میں قیام کے دوران اس کے دلکش مناظر اور فرامرز کی شاعری شہزادی کے دل میں اتر گئی اور وہ بخارا کے تخت و تاج سے دست بردار ہو کر اس کے ساتھ ایسے ہی پرفضا مقام پر باقی زندگی بسر کر نے پر آمادہ نظر آئی۔تاہم کشمیر پہنچ کر اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب شادی کے روز اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کا ہمسفر فرامرز ہی دراصل اس کا ہونے والا شوہرِ نامدار اور ولی عہد شہزادہ تھا(20)۔

حسن ابدال سے ملحقہ شہر واہ کینٹ کی ایک بستی لالہ رخ سے منسوب ہے، لگتا ہے اس مغل شہزادی کے نام کا سکہ آج بھی یہاں چلتا ہے۔
حسن ابدال میں ہری سنگھ نلوا کاتعمیر کردہ گوردوارہ پنجہ صاحب بھی ایک تاریخی اہمیت کی حامل عمارت ہے۔ یہاں ہر وقت یاتریوں کا میلہ سا لگا رہتا ہے۔ لال قلعہ اور جامع مسجد دہلی کے معمار استاد احمد معمار کی زیر نگرانی1640ء میں فن تعمیر کے اعلیٰ مراحل سے گزرنے والے واہ کے مغلیہ گارڈن نے بھی صدیوں سے کسی الہڑ دوشیزہ کی طرح سیاحوں کو اپنی زلفِ گیرہ گیر کا اسیر بنا رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ٹیکسلا کی قدیم خانقاہیں اسٹوپے، عبادت خانے، قلعے اور کھنڈرات بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے انہیں عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔

پوٹھوہار برصغیر کی تاریخ کی کتاب کا ایک درخشاں باب ہے، اس کی رہگزاروں میں طالب علم، دانشور اور سودا گروں کے قافلے گزرتے نظر آتے ہیں تو کہیں بیرونی حملہ آوروں کے جنگجو جتھے،دھول مٹی اڑاتے ماضی کے اوراق میں گم ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ اقوام کا چھوڑا ہوا ورثہ تاریخی اور نادر عمارتوں کی شکل میں مجسم ہے اور کہیں گورو اور بھکشوؤں کے گھومتے سائے معبد خانوں کی شکستہ دیواروں میں لرزاں ہیں۔
پوٹھوہار کا ماضی تہذیب و ثقافت اور دانش و حکمت سے عبارت ہے۔یہاں اس دور میں بھی علم کی شمع روشن تھی جب باقی دنیا جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے تلے سانس لے رہی تھی اگر ہم اپنے حال کی شکستہ کڑیاں عہد رفتہ کے تاریخی سلسلے سے جوڑ لیں تو ایک سہانے مستقبل کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔

حوالہ جات
1- ۔ رشید نثار ، وادی پوٹھوہار ،پنڈی اسلام آباد ادبی سوسائٹی (پیاس) 1997،ص49
2۔ایضاً
3۔ De Terra,H.& Paterson.Studies on the Ice Age in India & Associated Humen Culture, Washington DC.1939.p.277.
4۔ Marshal, Sir John, A Guide to Taxila, Cambridge, 4th Edition.1960.p 1-2
5۔سلسلہ وار ترتیب(۱)لیکن ص 79تا86
6۔سید حبیب شاہ بخاری،پوٹھوہار ماہ وسال کے آئینے میں ،سوہاوہ پرنٹنگ سروسزسوہاوہ،2002،ص113تا117
7۔محمد ولی اللہ خان،گندھارا،لوک ورثہ اسلام آباد،1987،ص35
8۔ Haleem M.A & Baig Sarwat, Islamabad Museum, Scope International, 9 B , Shah Alam Market, Lahore,1995.p,58
9۔عزیز ملک، پوٹھوہار، لوک ورثہ اسلام آباد ،1978،ص40
10۔بدھا پرکاش ، مہاراجہ پورس، جمہوری پبلیکیشنز لاہور، 2007ص77تا83
11۔سلسلہ وار ترتیب 6کے مطابق،ص،95
12۔ Nadiem, Ihsan H. Forts of Pakistan, Al-Faisal Publishers Ghazi Street, Urdu Bazar Lahore ,2004,p.62
13۔بحوالہ منتخب التواریخ، از بدایونی997ھ، طبقاتِ ناصری،ص،124،125
14۔تاریخ ابنِ خلدون جلد ششم ص،343،تاریخِ فرشتہ جلد اوّل مقالہ دوم، ص347
15۔سلسلہ وار ترتیب 6کے مطابق ص،98
16۔ایضاًص 56,57
17۔سلسلہ وار ترتیب 9کے مطابق ص71,72
18۔ Salman Rashid, The Salt Range & The Potohar Plateau,Sang-e-Meel Publications,25,Shahrah-e-Pakistan, Lahore,2005,pp.136-9
19۔ Same as Item(18) above but p.131
20۔صدیقی منظور الحق، تاریخِ حسن ابدال ،ادارہ تحقیقاتِ پاکستان ، دانشگاہ پنجاب ، لاہور 1997،ص84-85

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...