حزب اللہ : سیاسی مؤقف اور حکمت عملی میں تغیر وارتقا

1,585

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے مدیر ہیں ۔وہ نوجوان علماء کی ا س کڑی سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے بزرگوں کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے دور جدید کے مسائل پر اپنا ایک نقطہ نظر نہ صرف پیش کیا ہے بلکہ اپنے علمی استدلال سے ا س کو ثابت بھی کیا ہے ۔عمار خان ناصر آج کل ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں ہم ان کی علمی و فکری کاوشوں کے اعتراف کے طور پر ان کے مرتبے میں اضافے کے دعا گو ہیں ۔(مدیر )

حزب اللہ اس وقت عالم عرب کی نمایاں ترین مزاحمتی تحریک (حرکۃ مقاومۃ) ہے۔ اس کا ظہور لبنان کی پندرہ سالہ خانہ جنگی (۱۹۷۵ء تا ۱۹۹۰ء) کے دوران میں اس وقت ہوا جب ۱۹۸۲ء میں اسرائیلی افواج نے لبنان پر حملہ کر دیا اور لبنان کے تقریباً نصف علاقے پر قبضہ کر کے اس کے دار الحکومت بیروت کا محاصرہ کر لیا۔ اس حملے میں ابتداءً اسرائیل کا ارادہ جنوبی لبنان کو اسرائیل کا حصہ بنا کر اس پر مستقل قبضہ جمانے کا تھا، لیکن حزب اللہ اور دیگر قوتوں کی سخت مزاحمت اور جارحانہ عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں اسرائیل اس ارادے کو عملی جامہ نہ پہنا سکا اور ۱۹۸۵ء میں اسرائیلی حکومت نے اپنی فوجوں کو لبنان سے نکال کر اپنی جنوبی سرحدوں کے ساتھ متصل علاقے تک محدود کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسرائیل کے خلاف عسکری مزاحمت کرنے والی قوت کے طور پر حزب اللہ نے اپنے آغاز سے لے کر اب تک مختلف مرحلوں میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور تقریباً ہر مرحلے میں اسے عرب عوام اور مسلم دنیا میں پہلے سے بڑھ کر تائید حاصل ہوئی ہے۔
۱۹۸۵ء میں حزب اللہ نے اپنا پہلا باقاعدہ سیاسی منشور جاری کیا تھا جس کے مطابق اس کے اہداف میں لبنان سے استعماری طاقتوں کا خاتمہ، مسیحی انتہا پسند جماعت Phalange کو ان کے جرائم (یعنی صبرا اور شتیلا میں مسلمانوں کی قتل وغارت گری) کی پاداش میں کیفر کردار تک پہنچانا اور لبنان میں ایک اسلامی حکومت قائم کرنا تھا۔ حزب اللہ کے قائدین اسرائیل کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے کو بھی اپنا مقصد قرار دیتے رہے ہیں۔ تاہم ۸۰ء کی دہائی کے آخر اور ۹۰ء کی دہائی کے شروع میں عالمی سطح پر رونما ہونے والے نہایت اہم سیاسی واقعات نے حزب اللہ کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی سیاسی سوچ کا ازسرنو جائزہ لے اور اپنی ترجیحات کا ازسر نو تعین کرے۔ ۱۹۸۸ء میں ایران عراق جنگ کا خاتمہ ہوا۔ ۱۹۸۹ء میں آیت اللہ خمینی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ۱۹۹۰ء میں عراق نے کویت پر حملہ کر دیا۔ ۱۹۹۱ء میں میڈرڈ کانفرنس کی وساطت سے عرب اسرائیل امن مذاکرات کا آغاز ہوا۔ ۱۹۹۰ء میں ہی سوویت یونین شکست وریخت سے دوچار ہوا۔ ان تمام حالات کے شرق اوسط کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
لبنان کی مقامی سیاست کے اتار چڑھاؤ میں ’’معاہدۂ طائف‘‘ (۱۹۸۹ء) کو ایک نہایت اہم نقطہ تغیر (Turning point) کی حیثیت حاصل ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں لبنان کی پندرہ سالہ خانہ جنگی اختتام کو پہنچی اور یہ طے پایا کہ مختلف مسلح گروہوں سے اسلحہ واپس لے کر ملک کو ایک مرکزی اتھارٹی کے زیر انتظام لایا جائے گا۔ اگرچہ حزب اللہ معاہدۂ طائف میں فریق نہیں تھی اور نہ اس وقت ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے منظم تھی، تاہم ملک کے عمومی سیاسی منظر نامے میں رونما ہونے والی ایک اہم تبدیلی کے اثرات قبول نہ کرنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا، چنانچہ حزب اللہ کی قیادت نے معاہدۂ طائف کے بعد اپنی پالیسیوں اور ترجیحات واہداف پر ازسرنو غور کیا اور اپنی جدوجہد کو نئی صورت حال سے ہم آہنگ کرنے کے لیے غیر معمولی اجتہادی بصیرت کا ثبوت دیا۔
(حزب اللہ کے سیاسی نقطہ نظر اور حکمت عملی میں اس تغیر وارتقا کا ایک سنجیدہ مطالعہ ’’الاسلامیون فی مجتمع تعددی‘‘ کے عنوان سے ایرانی مصنف ڈاکٹر مسعود اسد اللٰہی نے کیا ہے۔ یہ کتاب بیروت کے دو اداروں، الدار العربیہ للعلوم اور مرکز الاستشارات والبحوث کے زیر اہتمام دسمبر ۲۰۰۴ء میں شائع ہوئی ہے۔ اصل میں یہ مصنف کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے جو فارسی زبان میں تحریر کیا گیا تھا۔ تہران کی امام صادق یونی ورسٹی کی طرف سے اس پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری جاری کی گئی، جبکہ ایران کی وزارت اطلاعات کی طرف سے اسے ۲۰۰۰ء میں لکھا جانے والا ڈاکٹریٹ کا بہترین مقالہ دے کر انعام بھی دیا گیا۔ مصنف نے اس مقالے میں عربی، فارسی اور انگریزی کے بہترین مراجع سے استفادہ کرتے ہوئے نیز حزب اللہ کے اعلیٰ سطحی قائدین سے براہ راست ملاقاتوں اور انٹرویوز کی روشنی میں حزب اللہ کے آغاز، اس کے فکری وسماجی پس منظر اور اس کی پالیسیوں میں رونما ہونے والے تغیرات کا گہری نظر سے جائزہ لیا ہے اور ایک سنجیدہ اور بڑی حد تک غیر جانب دارانہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ کتاب کی اسی اہمیت کے پیش نظر بیروت کے مذکورہ اداروں نے اسے عربی میں منتقل کرنے کی ضرورت محسوس کی اور اس کے عربی ترجمہ کی خدمت ڈاکٹر دالال عباس نے انجام دی ہے۔
ڈاکٹر مسعود اسد اللٰہی کی بیان کردہ تفصیلات اور اس موضوع پر کیے جانے والے دیگر اہم تجزیوں کی روشنی میں ایک عسکری تنظیم سے سیاسی جماعت میں تبدیل ہونے کے عمل میں حزب اللہ کو اپنے موقف اور پالیسیوں میں جو بنیادی اور جوہری تبدیلیاں لانی پڑیں، اس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:
۱۔ ابتدا میں حزب اللہ نے معاہدۂ طائف کی مخالفت کی اور اس میں طے پانے والی سیاسی اصلاحات کو لبنان کے سیاسی نظام کی درستی کے لیے ناکافی قرار دیا۔ حزب اللہ طائفی نظام کی مخالف ہے جس میں حکومتی مناصب فرقہ وارانہ تناسب سے مسیحیوں، اہل تشیع اور اہل سنت میں تقسیم ہیں۔ حزب اللہ اس کے بجائے آزادانہ جمہوری عمل کے ذریعے سے حکومت کے قیام پر یقین رکھتی ہے۔ تاہم لبنان کی تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے معاہدۂ طائف پر دستخط ہو جانے کے بعد اور یہ دیکھتے ہوئے کہ اس معاہدے کو امریکا، سوویت یونین، عرب ممالک اور خاص طور پر شام کی تائید حاصل ہے، حزب اللہ نے بتدریج اپنے موقف میں نرمی پیدا کی اور نہ صرف اس معاہدے کی شقوں کو عملاً قبول کرنے کا فیصلہ کیا بلکہ مسلح گروہوں کو غیر مسلح کرنے سے متعلق شقوں پر عمل درآمد میں بھی تعاون کیا اور ۱۹۹۱ء میں بیروت اور بقاع کے علاقے سے اپنا تمام اسلحہ نکال کر جنوبی لبنان میں منتقل کر دیا۔ اس کے بعد ۱۹۹۲ء میں بعلبک میں اپنا ایک نہایت اہم فوجی مرکز ’’ثکنہ عبد اللہ‘‘ خالی کر کے لبنانی فوج کے سپرد کر دیا۔
۲۔ ۱۹۹۰ء کے معاہدۂ طائف کے بعد حزب اللہ نے اپنی پالیسیوں اور ترجیحات میں جوہری تبدیلی کی اور انتہا پسندانہ انقلابی خیالات ترک کرکے لبنان کے جمہوری نظام کا حصہ بننے کا راستہ اختیار کیا۔ ۱۹۹۲ء میں حزب اللہ نے امام خمینی کی تائید سے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا جس پر داخلی طو رپر اختلاف اور تقسیم کی صورت بھی پیدا ہوئی، لیکن جمہوری طرز فکر غالب رہا۔ انتخابات کے موقع پر حزب اللہ نے جس سیاسی پروگرام کا آغاز کیا، اس میں لبنان کی سرزمین کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرانا، سیاسی فرقہ واریت کا خاتمہ، سیاسی اور ابلاغی آزادی کو یقینی بنانا اور لبنان کی آبادی کی درست نمائندگی کے لیے انتخاب سے متعلق قوانین کی اصلاح جیسے اہداف شامل تھے۔ ۱۹۹۲ء میں ہی حزب اللہ نے مسیحیوں کے ساتھ مکالمے کے عمل کا آغاز کیا اور یہ پیغام دیا کہ وہ ثقافتی، سیاسی اور مذہبی آزادیوں کے تقدس پر یقین رکھتی ہے۔ ۱۹۹۷ء میں حزب اللہ نے اسرائیلی قبضے کے خلاف جدوجہد کے لیے مختلف مذہبی گروہوں پر مشتمل لبنانی بریگیڈز کی تشکیل کی اور اپنی مزاحمتی جدوجہد کو شیعہ مذہبی تشخص سے الگ کر کے لبنانی قومی رنگ دینے کی کوشش کی۔
۳۔ حزب اللہ بنیادی طور پر ایک شیعہ تشخص رکھنے والی جماعت ہے ۔ اس نے روز اول سے اپنی فکری اور روحانی راہنمائی کا سرچشمہ ایران کے مذہبی انقلاب کو قرار دیااور اعلان کیا کہ وہ ولایت فقیہ کے تصور پر یقین رکھتی اور امام خمینی کی تعلیمات اور ہدایات کی روشنی میں جدوجہد کرنا چاہتی ہے۔ حزب اللہ نے ایران کے سرکاری جھنڈے کو اپنا جھنڈا قرار دیا۔ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے لیے حزب اللہ کی ابتدائی عسکری تربیت کا فریضہ بھی ’’پاس داران انقلاب‘‘ نے انجام دیا تھا۔ اس تناظر میں حزب اللہ نے جو سیاسی ومذہبی پروگرام پیش کیا، وہ ایک عالمی انقلابی پروگرام تھا جس میں حکمت عملی کے بنیادی پتھر کی حیثیت مسلح جدوجہد کو حاصل تھی۔ اس کے اہداف خارجی طور پر امریکا، فرانس اور اسرائیل تھے جبکہ لبنان کو ولایت فقیہ کے تصور کے تحت ایک اسلامی ریاست بنانا مقصود تھا جو شرق اوسط میں ’’عظیم تر اسلامی ریاست‘‘ کا ایک جزو ہوگی۔ لبنان کے مسیحی گروہوں کو امریکا اور اسرائیل کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے ان کے بارے میں شدید تحفظاتی موقف اپنایا گیا۔ حزب اللہ نے کہا کہ وہ لبنان کے مسیحیوں یا اہل سنت کی طرف سے تجویز کردہ کسی سیاسی منہج میں شریک ہونے پر یقین نہیں رکھتی اور اس کی بجائے ’’دوسروں‘‘ کو چاہیے کہ وہ حزب اللہ کے ’’اسلامی پروگرام‘‘ کے تحت اپنے لیے کردار کا انتخاب کریں۔ شرق اوسط کے عرب ممالک کو رجعت پسند اور شکست خوردہ کہا گیا، عرب حکومتوں کو اسرائیل کے خلاف موثر مزاحمت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تصور کیا گیا اور ان ممالک کے عوام کو حزب اللہ کی طرف سے یہ دعوت اور پیغام دیا گیا کہ وہ اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ گویا حزب اللہ کے ابتدائی سیاسی زاویہ نظر اور سوچ کی تشکیل سر تا سر ایرانی انقلاب کے توسیع پسندانہ افکار کے زیر اثر ہوئی تھی۔
ظاہر ہے کہ یہ ایک تخیلاتی اور رومانوی اسکیم تھی جسے ایک جذباتی فضا پیدا کرنے کے لیے تو استعمال کیا جا سکتا تھا، لیکن زمینی حقائق کی روشنی میں اس کے حقیقتاً رو بہ عمل ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا، چنانچہ ’’معاہدۂ طائف‘‘ کے بعد کی صورت حال میں جب حزب اللہ نے لبنانی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو اسے اپنے اس انقلابی پروگرام میں انقلابی تبدیلی پیدا کرنا پڑی اور لبنان کے محدود سیاسی تناظر میں اپنے اہداف اور عملی کردار کا ازسر نو تعین اس کے لیے ناگزیر قرار پایا۔ عربی ومغربی صحافت میں حزب اللہ کے اس فکری ارتقا کو ’لبننۃ حزب اللہ‘ (Lebanonization of Hezbollah) کا عنوان دیا جاتا ہے۔ حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ نے ایک موقع پر اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہم سمجھتے ہیں کہ ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے یہ ضروری ہے کہ عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت اس کی خواہش رکھتی ہو۔ ہم اکیاون فیصد اکثریت کی نہیں بلکہ بہت بڑی اکثریت کی بات کر رہے ہیں۔ یہ صور ت حال لبنان میں نہیں پائی جاتی اور غالباً کبھی نہیں پائی جائے گی۔‘‘
۴۔ حزب اللہ روز اول سے ایک تسلسل کے ساتھ یہ کہتی آئی ہے کہ اس کا ہدف ریاست اسرائیل کو صفحہ ہستی سے نابود کرنا ہے، چنانچہ اس نے اسرائیل کے وجود کو مستقل طور پر تسلیم کرنا تو درکنار، اس کے ساتھ امن مذاکرات کو بھی خارج از امکان قرار دیا۔ اسی وجہ سے ۱۹۹۳ء میں یاسر عرفات نے اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا تو حزب اللہ نے انھیں مسلمانوں کے ساتھ غداری کا مرتکب قرار دیا تاہم بعد کے عرصے میں حسن نصر اللہ کے متعدد بیانات اس موقف سے مختلف رجحان کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مثلاً ۲۰۰۰ء میں لبنان سے اسرائیلی فوجوں کے انخلا کے بعد حسن نصر اللہ نے بنت جبیل میں ایک بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس طرف اشارہ کیا کہ حزب اللہ القدس کی آزادی کے لیے اسرائیل کے خلاف کسی عسکری کارروائی میں شریک نہیں ہوگی۔ اسی طرح مجلس امن قومی کے سیکرٹری جنرل حسن روحانی نے کہا کہ اگر اسرائیل لبنان کے شبعا کے علاقے سے بھی نکل جائے تو حزب اللہ کی طرف سے اس کے خلاف عسکری کارروائیوں کو جاری رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا، کیونکہ حزب اللہ کی مقاومت سرزمین لبنان تک محدود ہے۔ (ماذا تعرف عن حزب اللہ، ۹۸)
۲۰۰۳ء میں ایک انٹرویو میں حسن نصر اللہ سے پوچھا گیا کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین مذاکرات کی تجدید کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ وہ کسی ایسے معاملے میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے جو ’’بنیادی طو رپر ایک فلسطینی مسئلہ‘‘ ہے۔ اسی طرح ۲۰۰۴ء میں ان سے سوال کیا گیا کہ اگر فلسطینی اور اسرائیل دو ریاستوں کے قیام پر باہم متفق ہو جائیں تو کیا وہ اسے قبول کر لیں گے؟ اس کے جواب میں حسن نصر اللہ نے کہا کہ وہ اس کو سبوتاژ نہیں کریں گے، کیونکہ یہ ایک ’’فلسطینی مسئلہ‘‘ ہے۔ حسن نصر اللہ نے یہ بھی کہا کہ لبنان کی حدود سے باہر وہ اسرائیلی فورسز کے خلاف صرف دفاع کی غرض سے لڑیں گے اور یہ کہ حزب اللہ کے میزائل دراصل لبنان پر اسرائیل کے حملوں کو روکنے کے لیے ہیں۔
حزب اللہ کی پالیسی میں اسی تبدیلی کے رد عمل کے طور پر صبحی طفیلی، جو حزب اللہ کے بانیوں میں سے تھے اور اس کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے، اس سے الگ ہو گئے اور ۲۰۰۳ء میں نیو ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ۹۰ء کی دہائی میں ایران کے سیاسی مؤقف میں تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی اور ۱۹۹۳ء اور ۱۹۹۶ء کے امن معاہدوں میں، ایرانی وزیر خارجہ کی موجودگی میں اسرائیل کو فلسطین میں پرامن وجود کی یقین دہانی کرائی گئی اور اسی مفاہمت کے تحت اسرائیل نے جنوبی لبنان سے اپنی فوجیں نکالنا شروع کیں۔ صبحی طفیلی نے کہا کہ اس کا مطلب عملاً یہ بنتا ہے کہ حزب اللہ نے اب اسرائیل کی (شمالی) سرحدوں کی حفاظت کا کردار قبول کر لیا ہے۔ صبحی طفیلی نے کہا کہ اگر کوئی شخص اس بات کو پرکھنا چاہے تو وہ اسلحہ لے کر اسرائیلی سرحدوں کی طرف جائے اور دشمن کے خلاف کوئی عسکری کارروائی کرنے کی کوشش کرے، اسے معلوم ہو جائے گاکہ حزب اللہ کے لوگ اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بہت سے افراد جو اس غرض سے گئے تھے، وہ حزب اللہ کے ہاتھوں گرفتار ہو کر اب جیلوں میں پڑے ہیں۔ (ماذا تعرف عن حزب اللہ، ۱۰۱ تا ۱۰۴)
۲۰۰۶ء میں حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیلی فوجیوں کی گرفتاری کے بعد اسرائیل نے ۳۴ دن تک بمباری کر کے لبنان کا پورا انفرا اسٹرکچر تباہ کر دیا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد حسن نصر اللہ نے ۲۷؍ جولائی ۲۰۰۶ء کو لبنان کے ٹی وی چینل New Tv کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک فیصد بھی اس بات کا اندازہ ہوتا کہ اسرائیلی فوجیوں کی گرفتاری کے نتیجے میں لبنان کو اس قدر تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا تو ایسا نہ کیا جاتا۔ حسن نصر اللہ نے کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جنگ کے ایک اور راؤنڈ کا ارادہ نہیں رکھتے۔ (ماذا تعرف عن حزب اللہ، ۹۴، ۹۵)
حزب اللہ کی عسکری جدوجہد کا تقابل اگر ہم اپنے یہاں کی جہادی تحریکات سے کریں تو اتفاق اور اختلاف کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔
اس بات میں دونوں کا اشتراک ہے کہ دونوں کا تنظیمی ڈھانچہ ریاستی نظام کے براہ راست کنٹرول میں نہیں اور ایک مستقل، متوازی اور آزاد سیٹ اپ کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے دونوں اپنی جدوجہد کا لائحہ عمل نظم اجتماعی کے فیصلوں اور پالیسیوں کے تابع اور ان کا پابند سمجھنے کے بجائے اپنے مخصوص تصورات کی روشنی میں طے کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ ایک فرق یہ ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کے وجود میں آنے اور طاقت پکڑنے کا عمل بنیادی طور پر ایک ایسے وقت میں ہوا جب لبنان خانہ جنگی کا شکار تھا، مختلف مذہبی گروہوں پر ریاست کا اختیار اورکنٹرول نہ ہونے کے برابر تھا اور ہر گروہ کے پاس اپنی اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق سیاسی وعسکری تنظیم کے کھلے مواقع موجود تھے، چنانچہ حزب اللہ نے شام اور ایران کی سیاسی، عسکری اور مالی مدد سے اپنے آپ کو منظم کیا۔ ہمارے یہاں صورت حال مختلف تھی۔ یہاں ریاستی نظم بھی مستحکم تھا اور فوج بھی ایک طاقت ور ادارے کے طور پر پوری طرح منظم تھی۔ فوجی قیادت نے ہی مخصوص سیاسی وتزویراتی مفادات کے پیش نظر عسکری گروہوں کی تشکیل اور ان کی تربیت وتنظیم کا فریضہ انجام دیا، لیکن ایک تو ان عناصر پر دوٹوک انداز میں یہ واضح کرنے کی بجائے کہ ان کی خدمات ایک مخصوص دائرے میں ریاست پاکستان کی پالیسیوں اور مفادات کے دائرے میں ہی مطلوب ہے، نہایت غیر حکیمانہ طریقہ اختیار کیا گیا جس کے تحت مسلسل دو دہائیوں تک نوجوان مذہبی نسل کو یہ خواب دکھایا گیا کہ عالمی سطح پر جہاد کے احیا کا عمل شروع ہو رہا ہے جو دنیا کی تمام کافر طاقتوں کو نابود کر کے اسلام کے عالمی غلبے پر منتج ہوگا، حالانکہ استعمال کرنے والی طاقتوں کے نزدیک ان عناصر کا حقیقی کردار اپنے اہداف کے ازخود تعین کرنے کا نہیں بلکہ محض اوپر سے معین کردہ اہداف کی تکمیل کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا تھا۔ اس دوغلے پن کی وجہ سے جب ریاست کو معروضی حالات کے تناظر میں اپنی پالیسیوں کا رخ بدلنا پڑا جو جہادی عناصر کی ترجیحات اور اہداف سے مختلف تھا تو بالکل فطری طور پر پاکستانی ریاست اور عسکری ادارے بھی ان کے نزدیک دشمن کی فہرست میں شامل ہو گئے۔
ایک اور اہم فرق یہ بھی تھا کہ حزب اللہ نے لبنان کے مخصوص حالات میں مختلف عوامل کے تحت بتدریج عسکری مزاحمت کرنے والی واحد اسلامی تنظیم کی حیثیت اختیار کر لی۔ لبنان میں موجود فلسطینی مزاحمت کاروں کا اخراج حزب اللہ کے وجود میں آنے سے قبل ہو چکا تھا۔ اگرچہ ابتدا میں مقامی طور پر بہت سے دوسرے گروہ بھی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے لیے سامنے آئے ، بلکہ حزب اللہ سے پہلے اہل تشیع کی سیاسی نمائندگی کرنے والی بڑی تنظیم ’’امل‘‘ کی طرف سے بھی حزب اللہ کو پر تشدد مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن بتدریج ایسا ہوا کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور لبنانی سیاست میں اہل تشیع کی پرزور نمائندگی کا جذبہ رکھنے والے عناصر حزب اللہ کے پرچم تلے جمع ہوتے گئے اور بعض داخلی اختلافات کے باوجود حزب اللہ ایک متحد قیادت کا تاثر پیدا کرنے میں کامیاب رہی۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں مختلف عسکری تنظیموں کی تشکیل اور الگ الگ اور باہم منقسم گروہوں کے طور پر ان کی بقا چونکہ خفیہ ہاتھوں کی مرہون منت تھی، اس لیے جہادی عناصر کسی ایک متحد طاقت کا تاثر پیداکرنے میں ناکام رہے اور عملاً یہ ہوا کہ نئے حالات میں ان میں سے کچھ نے مستقبل کی امیدوں اور وعدوں کے سہارے، ریاست کے ساتھ ہم آہنگی اور موافقت کا راستہ اختیار کیا، کچھ عملاً غیر متحرک ہو گئے اور کچھ ریاست کے خلاف باقاعدہ محاذ آرائی کے راستے پر چل پڑے۔
قیادت کی ذہنی وفکری سطح، ذہانت کے معیار (Calibre) اور پختہ کاری کے حوالے سے جو فرق سامنے آتا ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی قریب میں عالم اسلام کے مختلف خطوں میں عسکری جدوجہد منظم کرنے والی تحریکوں میں جس حقیقت پسندی کا اظہار ہمیں مثال کے طور پر امیر عبد القادر الجزائری، امام شامل اور خود برصغیر میں ۱۸۵۷ء کی جنگ میں شکست کھانے والے قائدین کے ہاں ملتا ہے، حزب اللہ کی قیادت بھی بڑی حد تک اسی حقیقت پسندی کا ثبوت دینے میں کامیاب رہی ہے اور اس کا تعلق خلیج اور شرق اوسط میں شیعہ سیاسی قیادت کے مجموعی فہم وبصیرت سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ ایرانی قیادت نے گزشتہ تیس سال کے عرصے میں نہ صرف اپنے ملک کا تحفظ کیا اور امریکا، عراق اور عرب ممالک کے ساتھ سیاسی مخاصمت کے باوجود اپنے وجود کو برقرار رکھا ہے بلکہ خطے میں اپنے سیاسی اثر ونفوذ کو بھی مستحکم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ عراق کی شیعہ مرجعیت نے امریکی حملے پر جذباتی اور سطحی رد عمل ظاہر کرتے ہوئے شدت پسند عناصر کا ساتھ دینے کی بجائے اسے عراقی اہل تشیع کے سیاسی حقوق اور سیاسی کردار کی بحالی کا ایک موقع سمجھتے ہوئے حملہ آور طاقت کے ساتھ تعاون کرنے اور اقتدار میں شریک ہو جانے کا مقصد حاصل کیا ہے اور لبنان کی حزب اللہ ابتدائی جذباتی مرحلے سے گزرنے کے بعد عملی بصیرت اور فراست کا اظہار کرتے ہوئے لبنان کی ایک ایسی سیاسی قوت کا روپ دھار چکی ہے جسے کسی حال میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...