خوف و دہشت کے سائے رخصت ، ڈیرہ میں عرس اور میلے لوٹ آئے

867

موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی روایتی میلوں اورمذہبی تہواروں کا انعقاد زندگی کی بوقلمونی کو نکھارکے حیات اجتماعی کو تر و تازگی اور تہذیبی روایات کو درخشندگی عطا کرتا ہے،زندگی کی تلخیوں کے ہاتھوں ستائے انسان تسکین حاصل کرنے اور سال بھر کی ذہنی تھکاوٹ سے نجات پانے کی خاطر میلے ٹھیلوں  میں پناہ ڈھونڈتے ہیں تاکہ اس زوال پذیرجسم کو پھر سے غم حیات کا بوجھ اٹھانے کے قابل بنایا جا سکے۔

ہزاروں سالوں سے پیہم رواں زندگی کے اسی فعال دھارے سے انسان کی فطری مانوسیت میں شعور زیست پروان چڑھا اور یہی وہ معاشرتی ترتیب تھی جو ثقافت کی تخلیق کا ذریعہ بنی،ایسے رجحانات جنہیں آنے والی نسلوں نے غلطیوں،آزمائشوں اور قطع برید کے بعدقبول کر لیا ہو تہذیبی اعتبار سے زندگی کا عکس بن جاتے ہیں،سماجی رسومات گویا برتاو کی وہ صورتیں ہیں جو اخلاقی ضوابط کو متشکل کرتی ہیں۔خوش قسمتی سے خطہ دامان کی سات ہزار سال پرانی تہذیب کا امین ڈیرہ اسماعیل خان آج بھی قدیم تہذیبی مظاہر اور ایک ایسے مضبوط خانقاہی نظام کا حامل ہے جس نے لاکھوں انسانوں کو سازِ زندگی سے مربوط کر رکھا ہے،یہاں درجنوں تہوار اور ثقافتی میلوں کی جوئے رواں میں اب بھی ایک گداز تمدن پروان چڑھ رہا ہے،

ان سماجی مظاہر میں قدیم ترین چودھواں کا میلہ کالو قلندر تھا جسے مذہبی تشدد کی مہیب لہروں نے معدوم کر ڈالا،تاہم کوہِ سرخ کے دامن میں پیرشاہ عیسی کی چھ سو سال پرانی خانقاہ سے وابستہ عرس کی تب و تاب اب بھی اُس دشت کو آباد و شاد رکھے ہوئے ہے،جہاں راجہ بَل کے قلعہ کافر کوٹ کے عظیم ایشان کھنڈرات کے سایہ میں متنوّع تہواروں کی صورت میں ایک صحت مند ثقافتی سرگرمی برپا رہتی ہے،اس روایتی تہوار کا محور مخدوم آف بلوٹ شریف،سید مرتجزحسین ہیں،جن کا تبحّر علمی اور قلندرانہ وجدان کا اسلوب،حقیقت ابدی کے، متلاشی صوفیوں کے لئے کشش کا باعث بنتا ہے،تاہم شکوہ پسند مخدوم زادوں نے اپنی سیاست کو انہی سماجی رسومات سے وابستہ کر کے اقتدار تک رسائی کی راہ ہموار بنا کے تہذیب کو کئی نئی جہتیں عطا کر دیں،کامل ایک ماہ پہ محیط مذہبی،سیاسی اور ثقافتی حرکیات کا یہ خوبصورت امتزاج ہمارے معاشرے کو زندگی کی بھرپور توانائی فراہم کرتا ہے، میلہ بلوٹ میں میانوالی،جھنگ،بھکر اور لیہ سمیت سرائیکی وسیب کے ہزاروں لوگ شریک رہتے ہیں،بلوٹ شریف کی خصوصیت جنّ،بھوت پریت اور پریوں کے مبینہ اثرات تلے پھنسے مرد و خواتین کو طبلے کی دھن پہ یوگا طرز کی خاص مشق”جاتراں“کرا کے صحت یاب بنایا جاتا ہے، یہ شاید نفسیاتی الجھنوں کا قدیم ترین طریقہ علاج ہو گا،افلاطون نے بھی یونان میں الغوزے کے مرض میں مبتلا خواتین کو موسیقی کی مدھر دھنوں پہ رقص کناں کر کے علاج کرنے کا تذکرہ کیا ہے،اس بار تو بلوٹ شریف کے میلہ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ امڈ آئے۔

اس سے قبل 21مارچ کو چیف آف کیچ ملک فتح شیر کا روایتی میلہ سجایا گیا جس میں نیزہ بازی،کبڈی،دودا،کتادوڑ،کشتی اور ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں سے ہزاروں افراد محظوظ ہوئے۔صوبائی وزیر مال علی امین کی مساعی سے 23 تا 27مارچ میلہ اسپان و موشیان کا انعقاد دلکش سرگرمی تھی،جس میں مقامی گھڑسواروں کے علاوہ بھکر،لیہ،ڈیرہ غازی خان ،میانوالی،فیصل آباد اور راولپنڈی کے شہسواروں اور پہلوانوں کو زورآزمائی کے مواقع ملے،میلہ میں اعلیٰ نسل کے مویشیوں کی نمائشی مقابلے بھی منعقد کرائے گئے، میلہ اسپان کے پہلو بہ پہلو مینا بازار کا انعقاد اور بیساکھی گراﺅنڈ کی شام موسیقی میں معروف گلوکار عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی کی گائیکی نے سمان باندھ دیا،اس فوک میوزیکل شو میں دریا خان،بھکر،تونسہ اور ڈیرہ غازی خان کے شائقین کی جوق در جوق شرکت نے شہر میں ٹریفک کے نظام کو درہم برہم کر دیا۔ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں علاقائی فن و ثقافت کی تین روزہ نمائش میں سلیقہ شعار خواتین کے پاکیزہ ہاتھوں سے بنی منفرد دستکاریوں کی نمائش کے علاوہ فن مصوری کے مقابلے بھی کرا کے مقامی فنکاروں کی حوصلہ افزائی کی گئی،5 اپریل کو پروآ میں میلہ شاہ اجمل،7 کو جشن پنیالہ اور 9اپریل کو پہاڑ پورکا میلہ بھی قابل دید سرگرمی تھا اور آخر میں13 اپریل کو بلوٹ میں شری کیول رام کی سمادھی پر بیساکھی کا تین روزہ تہوار جشن بہار کا اختتامیہ بن جاتا ہے،جس میں سندھ و بلوچستان سمیت ملک بھر سے ہزاروں ہندو یاتری شرکت کر کے مذہبی رسومات کی بجا آوری سمیت غریبوں میں پرشاد تقسیم کرتے ہیں، اس تہوار میں ہندووں کے علاوہ مقامی مسلمانوں کی قابل لحاظ تعداد بھی شریک ہوتی ہے

۔سچی بات یہی ہے کہ صوبائی وزیر مال علی امین نے بہار کے اُن روایتی میلوں کی بحالی ممکن بنا کے شہریوں کے دل جیت لئے، جنہیں دہشتگردی کی خونخوار لہروں نے منصہِ شہود سے مٹانے کی کوشش کی خاصکر میلہ اسپان و مویشیان کا انعقاد نہایت قابل قدر پیش رفت تھی جس کے انعقاد کو شہر کے باسی ترس گئے تھے،بلوچستان کے شہر سبی اور پنجاب کے دل لاہور میں جشن بہاراں کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کا میلہ اسپان ومویشیان ملک کا تیسرا بڑا روایتی میلہ سمجھا جاتا ہے جسمیں ملحقہ اضلاع کے لاکھوں لوگ شرکت کرتے ہیں۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...