لا تعلق معاشرہ ، مائنڈ سیٹ اور عفریت
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ ان کے پسماندگان کی تعداد لاکھوں بنتی ہیں اور متاثرین کروڑوں میں موجود ہیں۔ یہ مبالغہ آرائی نہیں آپ خود ذرا اس نکتہ پر غور فرمائیں۔اس بات سے انکار تو کسی کو نہیں ہوگا کہ ظلم ہوا ہے۔مظلوم تو کہنے پر مجبور ہیں البتہ ظالموں کی ذمہ داری لینے کی خو بھی نہیں بدلی ہے۔ وہ نامعلوم افراد کے ذریعے مارتے ہیں پھر نامعلوم مقام سے فون کرکے ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور نامعلوم مقاصد کی تکمیل کا مذموم عزم بھی دہراتے ہیں۔نامعلوم حکومتی ترجمانوں کے مذمتی بیانات بھی آتے ہیں اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر خون ناحق کا کیس بھی ایک ردی فائل کی طرح سردخانوں میں چلا جاتا ہے۔ زندگی پھر اپنے قاتل سے بے نیاز سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہے۔
یہ ایک اہم سوال ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے قاتلوں کو بظاہر ایمنسٹی حاصل رہی ہے بالخصوص پچھلے دس سال سے زائد کا عرصہ تو جیل توڑ سیل تک دیکھنے میں بھی آئی۔
جیسے جون دوہزار سترہ میں کراچی جیل سے دو خطرناک دہشت گردوں کے فرار کی خبر تو اپنے تمام تر تشویش ناک نتائج کے ساتھ ہی مرگئی ہو۔ کسی کو آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ ان دونوں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا البتہ یہ خبر ضرور آسکتی ہے کہ وہ کتنوں کو ہی نگل لیں گے۔ایسے واقعات کسی بھی صورت قابل برداشت نہیں ہونے چاہئیں۔
قومی سطح پر دہشت گردی کا تدارک مختلف مواقع پر مستحسن اقدام ہے۔ حالیہ ضرب عضب اور ردالفسادآپریشن بھی جاری و ساری ہیں۔ جن پر سبھی سیاسی جماعتیں بھی متفق ہیں۔ گاہے گاہے ان آپریشن کی کامیابیوں کی خبریں بھی ملتی رہتی ہیں جو اچھی بات ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان آپریشن کومسلحانہ گروہوں کی سرکوبی کے ساتھ سردجنگ کے دوران پنپنے والے اس مائنڈ سیٹ کے خلاف بھی استعمال میں لانا چاہییے کہ جس سے ہمارا معاشرہ براہ راست متاثر ہوا ہے اور ہماری نسلیں اس کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔مزید سائنسی خطوط پر اور سیاسی و سماجی ارادے کے ساتھ اس پر عملی قدم نہ اٹھایا گیا تو وہ دن دور نہیں کہ اس عفریت کو قابو نہ کیا جاسکے۔
ایک اہم بات جو اسی صورت حال سے ہر حوالے سے متعلق ہے کہ ہمارا معاشرہ پچھلے برسوں کے المیوں سے جو سیکھ سکتا تھا اور بطور ایک انسانی معاشرہ کے آپسی رشتوں کو کس حد تک مضبوط کرسکتا تھا۔ اس پرجو نتیجہ نکل کر سامنے آتا ہے وہ بذات خود ایک المناک حالت کی غماز ہے۔ ایسا معاشرہ جو باہمی تعلق اور ربط کو برقرار نہیں رکھ پایا ہو اور وہ ایک دوسرے کے رنج اور دکھ اور دیگر ایسے معاملات کو اپنے آپ سے جدا سمجھتا ہو اس معاشرے کو لاتعلق معاشرہ کہا جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ اپنی انفرادی زندگی کے گرداب میں پھنسا ہوتا ہے اور کسی دوسرے کی مصیبت اور تکلیف کو قطعی طور پر اپنا سمجھنے سے انکاری ہوتا ہے۔ ہمارے اردو شعراء بھی بڑے با کمال ہیں ایسے ایسے شعر نکال لاتے ہیں کہ اگر ان کا تطابق عمرانیات اور سیاسیات کے علوم کے ساتھ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ معاشرے میں وقوع پذیر بہت سے معاملات کو کہیں پہلے سے اور بہتر طریقے سے محسوس کرچکے ہوتے ہیں۔ایک لاتعلق معاشرے کے لیے اس سے بڑا شعر کیا ہوسکتا ہے؟
حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا
کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر
بعینہ جناب جون ایلیا کا طنز ملاحظہ ہو:
آج کا دن بھی عیش سے گزرا
سر سے پا تک بدن سلامت ہے
بات شاعری کی طرف نکلی چلو اچھا ہوا بہت سے لوگ لاتعلق معاشرے کا حصہ ہونے کے باوجود اپنے کردار کو نہیں جان پائے تھے اب جان جائیں گے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ جب ایک انسان کا ناحق خون بہتا ہے تو اسی طرح کا دوسرا انسان پتلی گلی سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے اور اس ظلم پر مہر بہ لب زندگی کو اپنی بقا سمجھنا شروع کردیتا ہے۔پھر وہ بھی خود کسی دن ایسے کسی ناروا عمل کی زد میں آتا ہے اور کوئی اسی جیسا دوسرا اس کے خون کے رنگ کو ان دیکھا کرتا ہے اور اس کے اور اس کے بچوں کے ساتھ شروع ہونے والے دکھوں کو محسوس کرنے کا تکلف نہیں کرتا ہے۔ معاشرہ اگر ایسا ہے تو وہ ذلت و رسوائی کے پاتال میں گرچکا ہوتا ہے۔ یہ مکمل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔مان لیجئے۔
پاکستان میں اب تک جتنے بھی دہشت گردانہ اور خلاف آئین و قانون واقعات ہوئے ہیں اگرچہ ان کے معاشی و سماجی اثرات کی ضرب کاری رہی ہے لیکن جو اندوہناک سانحات ہوتے رہے ہیں جن سے پیر و جوان ، زن و مرد بوڑھے اور بچے اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں یہ انتہا ہے۔ یہ دکھ ہے۔ الم ہے۔ ستم ہے۔ ناانصافی ہے اور ظلم عظیم ہے۔کسی کو بھی کسی انسان کی جان لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔۔۔ لیکن نہیں ٹھہریئے ۔۔۔ اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات پرنظر دوڑایئے ۔۔۔یہاں کسی کو دہشت گردانہ عزائم سے یا کسی بھی ذاتی یا اجتماعی بنیاد پر مارنا معمول بن چکا ہے کہ قتل کرنا جیسے قتل ہونا ہو اور کچھ بھی نہیں۔اس پر قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بات تو بعد میں ہوسکتی ہے۔ قدم اوّل میں لوگوں کا ردعمل انتہائی ہلکے پھلکے انداز میں ہونا بھی بڑی بات سمجھا جاتا ہے۔اجتماعی سطح پر ہمارا مجموعی رویہ دوسروں کے دکھ درد میں لاتعلقی پر مبنی ہے۔ یہ زوال آمادہ معاشرہ کی صریح نشانی ہے۔
پاکستان کا کوئی ایسا شہر اور قریہ ایسا نہیں جہاں المیوں کی داستان موجود نہیں۔لیکن یہاں ہر ایک نے اپنے اپنے دکھوں کا بوجھ خود ہی اٹھایا ہوا ہے۔ کراچی سے لے کر کوئٹہ ، کوئٹہ سے لے کر لاہور غرض پارہ چنار ، شاہ نورانی یا سہون شریف یا پھر مشعال خان جیسے واقعات پر ہمارا منقسم رویہ بھی ہمارے لاتعلق ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ ان بدترین دس برسوں میں اجتماعی طور پر معاشرتی یک جہتی نظر نہیں آئی اور نہ ہی کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود ہے جہاں تمام شعبہ ہائے زندگی کے ذمہ داران مشترکہ اور قومی انداز میں ایک پر امن اور با انصاف معاشرہ کی تشکیل میں ہم آواز ہوکر مضبوط اور قابل عمل فیصلے کریں۔ ہمیں ان اہم انسانی مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہی پڑے گا۔یہ قوم مذمت کی قوم بن چکی ہے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ لفظ مذمت کا مفہوم تک نہیں جانتی ہوگی۔ہمیں اپنے تمام تر نظریات و خیالات سے بالا ہوکر ایک ایسا لائحہ عمل بنانا ہوگا کہ پاکستان میں جہاں بھی کوئی بھی واقعہ ہو سب اسے سانجھا سمجھے اور کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اچھاوہاں یہ پھر ہوا۔۔۔دھماکہ۔۔۔ قتل ۔۔۔ اغوا۔۔۔ اور اشتعال انگیزی۔۔۔
تمام باتوں کی ایک بات بقول احمد ندیم قاسمی مرحوم کے ’’انسا ن عظیم ہے خدایا‘‘اسی انسان دوستی پر فارسی ادبیات سے ایک قطعہ ترجمہ کے ساتھ پیش خدمت ہے گر قبول افتد زہے عز و شرف:
بنی آدم اعضای دیگرند
کہ درآفرینش زیک گوھرند
چو عضوی بدرد آورد روزگار
دگر عضوھا را نما ند قرار
تو کز محنت دیگران بی غمی
نشاید کہ نامت نھند آدمی (حضرت شیخ سعدی )
ترجمہ: تمام انسان ایک جسم کے اعضاء کی طرح ایک دوسرے کا حصہ ہیں
کہ ان کی اصل ایک ہے
اگر کسی جسم کے کسی ایک حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے
تو جسم کے دیگر حصوں کو بھی چین اور قرار باقی نہیں رہتا
اے انسان ! اگر تجھے دوسروں کی تکلیف کا غم نہیں ہوتا ہے
تو پھر تجھے انسان کہلانا مناسب نہ ہوگا
۔۔۔۔
فیس بک پر تبصرے