قومی مفاد اور احتساب سب کا

1,084

وزیراعظم نواز شریف کا بچنامحال ہے۔ وہ اپنے انجام کار کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کا دفاع نہ صرف ناممکن ہے بلکہ کسی عجوبہ سے کم بھی نہیں- پانامہ جلد ماضی بن جائے گا لیکن یہ کیس کچھ اہم بحث ضرور چھیڑ گیاہے۔
ہردفعہ ایک منتخب حکومت یا وزیر اعظم ہی احتساب کی بھینٹ کیوں چڑھا دیا جاتا ہے؟ کیا باقی سب ادارے اور اعلیٰ حکام امانت اور دیانت کے معیار پر پورا اترتے ہیں؟
وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف کیسسز کی بڑی تعداد ان سمیت سب کو پہلے بھی کئی بار امتحان میں ڈال چکی ہے۔ جب جنرل مشرف نے ایک منتخب حکومت کا تختہ دھڑام کیا اور پھراحتساب کی صدا بلند کی تو اکثریت ان ہی کیسسز کی تھی جن کے گرداب میں نواز حکومت اب پھنسی ہوئی ہے-
فوج جیسے مضبوط اور طاقتور ادارے کے کمانڈو چیف کیوں احتساب کا وعدہ پورا نہ کرسکے؟ شاید وجہ یہ تھی کہ ان کو کسی بہانے اقتدار تک رسائی چاہئے  تھی جیسے ہی وہ یقینی ہوئی پھر نام نہاد  مصلحت پسندی آڑے آ گئی-
کیا مشرف فوج جیسے ادارے کو اقتدار میں ملکی مفاد کے لئے گھسیٹ لائے یا پھر اپنے مفاد کو یقینی بنانے کے لیے آئین، قانون اورانصاف کے نظام کا مذاق اڑایا؟
جب مشرف کو نظریہ ضرورت کا فائدہ پہنچایا گیا تو پھر عدلیہ اپنے انصاف کے پہیے کو کہاں بھول  گئی تھی؟
یہ سارے کیسسز مختلف عدالتوں اور اداروں کے سامنے زیرسماعت اور زیر تفتیش رہے تب ان پر فیصلے کیوں نہیں ہو سکے؟ کیا یہ تسلیم کر لیا گیا تھا کہ جو راولپنڈی سے سمجھوتہ ایکسپریس چلی تھی وہ بھی اسی کےمسافر تھے؟
قومی احتساب بیورو نے ایک فوجی حکومت کے ماتحت جنم لیا لیکن پھراس کو بھی سمجھوتہ ایکسپریس کا ٹکٹ تھما دیا گیا۔
نواز شریف کی شکل میں ایک دفعہ پھر منتخب حکومت کا احتساب تو خوش آئند ہے ہی لیکن کیا فوج اور عدلیہ کے اداروں کو اپنے منفی کردار پرآئین کے آرٹیکل 19 کے پچھلے حصے کا فائدہ پہنچا کر زباں بندی کر دی جائے یا آئینی حق استعمال کر کے احتساب سب کے لیے کا نعرہ بلند کیا جائے؟
اگر احتساب اور انصاف کی بحث شروع ہو ہی گئی ہے تو پھر کیوں نہ مکمل انصاف اور ہر ایک کے احتساب کی بات کی جائے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ پانامہ فیصلہ محفوظ ہونے سے ایک دن قبل پرویز مشرف کیس میں پراسیکیوٹر اکرم شیخ کی کال آئی کہ وہ اپنے حوالے سے کچھ وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ پانامہ کیس میں عدالت عظمٰی میں دستاویزات جمع کراتے ہوئے ان سے کوئی معمولی غلطی ہو گئی تھی۔ لیکن ان کا مؤقف تھا کہ انھوں نے کوئی جعل سازی کی اور نہ حقائق چھپائے۔
اس موقع کا فائدہ اٹھا کر میں نے ان سے کچھ مشرف کیس کے احوال پر پوچھ لیا۔ لیکن احتیاط سے پہلے ان کو یہ باور کرایا کہ وہ وزیر اعظم کے قابل اعتماد ساتھی اور وکیل ہیں۔ ایک طرف وزیر اعظم سب کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں اوردوسری طرف آپ سے مشرف ٹرائل ہی نہیں چلایا جا رہا ہے۔
میں انھیں غصہ دلانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اب اکرم شیخ گویا ہوئے۔
بات کچھ یوں ہے کہ کروڑوں روپے فیس کی پیشکش کے باوجود ملک کے نامور وکلاء مشرف کیس کی پیروی سے انکاری تھے۔
پھر میں نے وزیر اعظم نواز شریف، جن سے میرا پرانا خاندانی تعلق بھی ہے، کی درخواست پر اس نایاب کیس کی پیروی کرنے کی حامی بھری۔ شرط صرف یہ تھی کہ وفاقی حکومت یہ کیس واپس نہیں لے گی۔
میں نے 2014 میں یہ کیس ختم کرا دیا تھا۔ ملزم جنرل مشرف کٹہرے میں کھڑے ہوئے اور فرد جرم بھی عائد ہوئی۔ اب عدلیہ کا کام تھا کہ وہ سزا دیتی

لیکن نتائج توقعات کےبرعکس نکلے۔ آئی ایس آئی کےمتعلقہ افسر میرے گھر آئے اور اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیرالسلام کی طرف سے جان سے مار دینے کا پیغام پہنچایا۔ انھوں نے بتایا کہ اس طرح کے کیسسز میں پراسیکیوٹرز ادھر ادھر ہو جاتے ہوتے ہیں۔ یہ دھمکیاں بے جا نہ تھیں۔ میں آپ کو کیا بتاؤں میری 43 سال ساتھ رہنے والی شریک حیات ایسی ہی دھمکیاں سن سن کر اس دار فانی سے پریشانی کے عالم میں کوچ کر گئیں۔ میں ابھی بھی باز نہیں آیا تو دھرنے شروع ہو گئے۔ مجھے ایوان وزیر اعظم سے کال موصول ہوئی کہ ہم سے استعفی مانگا جا رہا ہے یہ کیس مزید کتنا وقت لےگا؟

وزیر اعظم نے کچھ توقف کے بعد مجھے پھر کہا کہ کیس کی پیروی جاری رکھی جائے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے بنائی گئی خصوصی عدالت نے میرے اعتراض کے باوجود مفرور (مشرف) کی طرف سے التواء کی درخواست منظور کرلی۔ ابھی یہ بحث طلب بات ہے کہ کیا مفرور کو وکیل کا حق بھی ہے؟ اور اگر ہو تو پھر وکیل ہی التواء کی درخواست کرے نہ کہ کوئی اجنبی جیسا کہ غداری کے مقدمہ میں ہوا۔
اکرم شیخ کی یہ باتیں سن کر میں جلدی جلدی واپس دفتر پہنچا اور یہ انکشافات سے بھرا انٹرویو ٹی وی کے حوالے کر دیا۔
اکرم شیخ ابھی عمران خان کے خلاف بیرون ملک سے تحریک انصاف کے لیےممنوعہ فنڈنگ کے کیس کی پیروی کر رہے ہیں۔ اس کیس میں بھی وہ بہت حد تک کامیاب نظر آرہے ہیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر اکرم شیخ 1990 کے عام انتخابات میں فوج اور آئی ایس آئی کی طرف سے کی جانے والی دھاندلی کے کیس میں بھی وکیل ہیں۔ اس کیس میں وہ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل اسد درانی کا دفاع کر رہے ہیں۔ فوج جیسے دو اہم عہدیداروں نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اپنے جرائم کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ لیکن انصاف کا پہیہ ہے کہ چلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
وزیر اعظم نواز شریف کو اگر 1990 کےالیکشن میں دھاندلی کے کیس میں سزا ملی تو پھر ان کا اپنا ’’احتساب سب کا‘‘خواب بھی پورا ہو جائے گا اور سراج الحق ضیاءالحق کے دور میں آئینی تحریف کے ذریعےمتعارف شدہ دو آرٹیکلز 62 اور 63 کا حوالہ بھی نہیں دے سکیں گے۔
این ایل سی کرپشن کیس، ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی کے نام پر اربوں کی زمینوں کے گھپلے، ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ اور حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا تذکرہ شاید ابھی قومی مفاد میں نہ ہو۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...