نوازشریف اس بار قدم نہیں بڑھائیں گے

977

 1999میں بھی وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں جب نعرے لگتے تھے ’’قدم بڑھاؤ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘لیکن جب انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ اٹک قلعے میں تھے اور پیچھے کوئی نہیں تھا

نومبر1997میں نوازشریف کے لئے حالات کافی دگرگوں تھے ،چیف جسٹس سجاد علی شاہ توہینِ عدالت  میں انہیں نااہل قرار دینے والے تھے کہ سپریم کورٹ کے کوئٹہ بنچ نے جسٹس سعید الزما ں صدیقی کی قیادت میں ایک طرح سے سجاد علی شاہ کے خلاف بغاوت کر دی ۔معاملہ کافی گھمبیر ہوتا گیا ۔ایوانِ صدر میں فاروق لغاری متمکن تھے ۔بالآخر سب کو رخصت ہونا پڑا مگر نواز شریف نے قوم سے خطاب میں محلاتی سازشوں کا پردہ چاک کیا ۔استاد ِ مکرم مجیب الرحمٰن شامی کی لکھی ہوئی تقریر نے نواز شریف کو لیڈر بنا دیا ۔اگلے عام انتخابات میں وہ بھاری مینڈیٹ لے کر آئے ۔برادر م سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ نواز شریف موچی دروازے ، بھاٹی گیٹ ، لیاقت باغ یا مزار قائد میں آکر جلسہ کریں اور عوام کو حقیقت بتائیں ۔

نواز شریف جلسے تو کر رہے ہیں مگر ان میں بتا کچھ نہیں رہے ۔انہوں نے چالیس سال سے زیر التوا لواری ٹنل کا افتتاح بھی کیا اگرچہ یہ افتتاح معمول کے مطابق چودہ اگست کو ہوا تھا مگر جلدی میں فیتہ کاٹ دیا گیا  اسی طرح جیسے 1997میں انہوں نے آخری دنوں میں موٹر وے کا افتتاح کیا تھا اور جب وہ موٹر وے پر پنڈی سے لاہور ہر انٹر چینج پر جلسوں سے خطاب کر رہے تھے تو انہیں کوئٹہ بنچ کے فیصلے کے متعلق آگاہ کیا گیا تھا ۔نواز شریف 1997کی طرح اب سپریم کورٹ کو ہدف  بھی نہیں بنانا چاہتے نہ ہی چیف جسٹس کو پارلیمنٹ کی استحقا ق کمیٹی کے ذریعے جیل بھیجنے کی خواہش رکھتے ہیں جیسا کہ سجاد علی شاہ کے بارے میں انہوں نے یہ کوشش کی تھی ۔

جب نعرے لگتے تھے ’’قدم بڑھاؤ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘لیکن جب انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ اٹک قلعے میں تھے اور پیچھے کوئی نہیں تھا۔ ممبران اسمبلی ق لیگ میں اکھٹے ہو چکے تھے ۔اب بھی انہیں کسی اور لیگ پر ’’نثار ‘‘ کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں

نوازشریف  اور ان کے وزرا تحریک انصاف کو تو ہدف کا نشانہ بناتے ہیں لیکن جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا عدلیہ یا فوج بھی ان کے خلاف سازش میں شریک ہے تو وہ اس کی نفی کرتے ہیں ۔لیکن درپردہ ان کے جملوں سے یہی آشکار ہوتا ہے کہ اصل معاملہ کچھ اور ہے پانامہ تو محض بہانہ ہے ۔یہ اصل معاملہ ریاست کی افغان  ،انڈیا  اور خلیجی پالیسیاں ہیں جن کی جھلک  قوم ڈان لیکس کے معاملے پر دیکھ چکی ہے اور یہی وہ وجہ ہے جس نے نواز حکومت کو خاتمے کے قریب کر دیا ہے ۔اگر ڈان لیکس کا معاملہ نہ ہوتا تو شاید نوازشریف آرمی  چیف کی تقرری میں صوابدیدی اختیار بھی  استعمال نہ کرتے ۔ڈان لیکس کا معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ یہ  اپنی شکلیں بدل بدل کر سامنے آیا ۔نوازشریف پانامہ  کے مسئلے پر جے آئی ٹی کو بھی اسی پس منظر میں دیکھتے ہیں ۔

اگر ڈان لیکس کا معاملہ نہ ہوتا تو شاید نوازشریف آرمی  چیف کی تقرری میں صوابدیدی اختیار بھی  استعمال نہ کرتے ۔ڈان لیکس کا معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ یہ  اپنی شکلیں بدل بدل کر سامنے آیا

نوازشریف اگر نا اہل قرار پاتے ہیں تو ان کا رد عمل کیا ہو گا ؟ان کے پا س دو راستے ہیں ایک وہ اقتدار کسی اور ساتھی کے سپرد  کر کے  وقتی طور پر گھر چلے جائیں اور اپنی نااہلی کے خلاف عدالتی جنگ لڑیں دوسرا یہ ہے کہ وہ فیصلے کو قبول نہ کریں اور سیاسی بحران پیدا کر دیں ۔ نوازشریف کس راستے کاانتخاب کرتے ہیں  یہ اب ان پر منحصر ہے لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے ان کے بیانات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ وہ پہلے آپشن کا استعمال کریں گے ۔کیونکہ وہ 1999میں بھی وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں جب نعرے لگتے تھے ’’قدم بڑھاؤ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘لیکن جب انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ اٹک قلعے میں تھے اور پیچھے کوئی نہیں تھا۔ ممبران اسمبلی ق لیگ میں اکھٹے ہو چکے تھے ۔اب بھی انہیں کسی اور لیگ پر ’’نثار ‘‘ کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔اس لئے نوازشریف اکیلے ہیں لیکن اس بار وہ اپنے سینے میں چھپے راز بھی کسی کو سنانے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ  ان پر الزام  بدعنوانی کا ہے ۔1999میں انہیں غدار ٹھہرایا گیا تھا اور 2017میں بدعنوان ،ان ٹھارہ سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلا اس دوران اٹک کے پل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے مگر اس کی رنگت اور ذائقہ وہی ہے اس لئے نوازشریف دوبارہ اٹک قلعہ نہیں جانا چاہئیں گے اب اصل سوال یہ ہے کہ ان کی جگہ وزیراعظم کون ہو گا ؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...