جمہوریت کاتسلسل ، کرپشن اوراحتساب کی دودھاری تلوار
نوازحکومت کے خلاف جی آئی ٹی رپورٹ کے سامنے آنے کے ساتھ ہی یہ بحث پھرشروع ہوگئی ہے کہ ملک سے کرپشن کاخاتمہ اورطاقتورترین سیاستدانوں کااحتساب ضروری ہے یا جمہوریت کی لڑائی اولیت رکھتی ہے
کرپیشن کاخاتمہ اوراحتساب ضروری ہے یاپھرجمہوریت کے نام پرقائم حکومتوں کوبچاناضروری ہے؟ کہاجاتاہے کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین امریت سے بہترہے۔
نوازحکومت کے خلاف جی آئی ٹی رپورٹ کے سامنے آنے کے ساتھ ہی یہ بحث پھرشروع ہوگئی ہے کہ ملک سے کرپشن کاخاتمہ اورطاقتورترین سیاستدانوں کااحتساب ضروری ہے یا جمہوریت کی لڑائی اولیت رکھتی ہے۔ میثاق جمہوریت 2006کے معاہدہ کی روشنی میں پاس ہونے والے 18ویں ترمیم کےبعد سے حکومتوں کے تسلسل کوجمہوری نظام کی مضبوطی قراردیاجارہاہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ہی بڑےسیاستدانوں جیسے نوازشریف اورعمران خان کے آف شورکمپنیوں کا معاملہ آگے آیاہے جبکہ آصف علی زرداری کی منی لانڈنگ کی خبریں عام ہیں۔
1990کی دہائی میں بے نظیربھٹوکی حکومتیں ختم میں کرپشن کوبنیادی ہتھیارکے طورپراستعمال کیاگیا۔ جبکہ بے نظیراپنے حکومتوں کے خلاف اقدام کوہمیشہ ملک میں جمہوریت کے خلاف اسٹبلشمنٹ کی کوششیں قراردیتیں۔ یہاں اسٹبلشمنٹ سے مراد ریاست کے غیرمنتخب ستون ہیں۔ ان میں انتظامیہ میں بیوروکریسی اورفوج شامل ہے۔ پاکستان کی ابتدائی حکومتوں کے خاتمہ اورپہلے مارشل میں بیوروکریسی نے اہم کردارادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ عدلیہ تیسراہم ادارہ ہے۔ یوں ریاست کے ایک ستون مقننہ (پارلیمان) کی منتخب کردہ حکومتوں کوانہی دواداروں کے ہاتھوں ہزیمت کاسامناکرناپڑااوراس میں منتخب حکومتوں کو ختم کرنے کے لئے کرپشن اوراحتساب ہی سب سے اہم نعرے رہے۔
2007کی وکلاء تحریک کی کامیابی کے نتیجہ میں ایک بارپھرجمہوریت کی بحالی اورجنرل مشرف کی برطرفی کے بعد دواہم امورسامنے آئے۔ ایک توعدلیہ کی دیگرریاستی ستونوں پرنسبتی سبقت اوردوسرا 18ویں آئینی ترمیم۔ اس کے ساتھ کہاجانے لگاکہ اب فوجی بغاوتوں روکنےکاکافی حدتک تدارک ممکن ہوگیاہے۔
اگرچہ وکلاء تحریک کے زوال کے بعد ایک بارپھرپارلیمان اورفوج نے آگے آنے کی کوشش کی۔ اس جنگ میں فوج نے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں اپنی حیثیت منوالی مگریہ ’سوفٹ کو‘سے آگے نہ بڑھ سکی۔ عمران خان اورطاہرالقادری کے دھرنے بھی فوجی بغاوت کی راہ ہموارنہ کرسکے۔ اس دوران ہر آن عدلیہ، جمہوری تسلسل برقراررکھنے کاراگ الاپتا رہا۔ شیخ رشیدنے اپنی ایک حالیہ پریس کانفرنس میں کہاکہ فوج اورعدلیہ ایک طرف ہے اورنوازحکومت دوسری طرف۔ یوں اب کہاجارہاہے کہ اسٹبلشمنٹ حکومت کے خاتمے کے لئے عدالتی تلواراستعمال کررہی ہے۔ یوں پی پی پی کے منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کوعدالت نے 2012میں ختم کی۔ اس کی بنیادبھی صدرآصف علی زردای کے کریشن کے خلاف کرپشن کے مقدمات دوبارہ کھولنے کے لئے سوئس حکومت کوخط نہ لکھناتھا۔ یوں یہ ایک حقیقت ہے کہ عوامی ووٹوں سے منتخب ہوکرآنے والے بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں۔ لیکن یہی فوجی حکومتوں کے خلاف بھی ایک دلیل ہے۔
روزنامہ ڈان اپنے ایک اداریہ میں کہتاہے کہ یہ سادہ سی حقیقت ہےکہ کوئی جمہوری نظام میں ایک ایسے گہرے شکوک وشہبات کے سائے میں کوئی وزیراعظم اخلاقی طورپرکام نہیں کرسکتا۔نوازشریف کونظام کے شفافیت پرشبہ کرنے کاحق ہے لیکن نظام کواس پرشکوک وشہبات ہیں۔ ایسے میں نظام کو شخصیات پربرتری ہونی چاہئے۔
لیکن جیساکہ عاصمہ جہانگیراورجاوید ہاشمی نے سوال اٹھایاہے کہ کرپشن کی تحقیقات اوراحتساب کاعمل محض منتخب سیاسی حکمرانوں کے خلاف کیوں استعمال کیاجاتاہے۔ اس کی زد میں فوجی جرنیل اورعدلیہ کے جج بھی آنے چاہئیں۔ جاوید ہاشمی نے ایک مرتبہ پھرخاموشی توڑتے ہوئے پنامہ کیس میں جی آئِی ٹی کی رپورٹ پراپنی پریس کانفرنس میں کہاکہ سیاستدانوں سے اثاثوں کاتوپوچھاجاتاہے لیکن کوئی عدلیہ کے جج اورفوج کے جرنیلوں سے کیوں حساب نہیں مانگتاکہ ان کی دولت کے ذرائع کیاہیں۔انہوں نے کہاکہ جنرلز کی جائیدادیں نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، دبئی اور ملک کے دیگر حصوں میں موجود ہیں، کیا ان سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ انہوں نے یہ اثاثے کس طرح بنائے۔
ایک اوردلیل یہ دی جارہی ہے کہ پانامہ پیپرزمیں دیگرافراد کونظراندازکردیاگیاہے، جس میں پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹیری جہانگیرترین کانام بھی شامل ہے۔ پہلی لسٹ میں 220 پاکستانیوں کے نام شامل تھے جن کی آف شورکمپنیاں ہیں۔ ان کی دولت کن ذرائع سے آئی اورکیسے باہربھیجی گئی اس کی تحقیقات ہوناابھی باقی ہے، اس میں سیاستدانوں کے علاوہ کئی سرمایہ داروں اورکاروباریوں کے نام بھی ہیں۔ ویلیولیک کےمطابق اس فہرست میں رئیل اسٹیٹ کے ٹائیکون ملک ریاض حسین، پیٹزا ہٹ کے مالک عاقل حسین اوراس کے خاندان، سورتی کمپنی کے مالک عبدالرشید سورتی اوراس کی فیملی، صدرالدین ہاشوانی، ہلٹن فارماکے مالک شہبازیاسین ملک اورفیملی، سیٹھ عبدالصمد داؤد، سفائیرٹیکسٹائل کے عبداللہ فیملی، لکی ٹیکسٹائل کے گل محمد ٹبہ، مقصودٹیکسٹآئل ملزکے شاہدنزیر، لکسن گروپ کے مالک ذوالفقارلاکھانی ودیگرشامل ہیں۔ اس طرح پانامہ پیپرز ملک میں بدعنوانی کاعیاں کرتاہے۔
سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ عدالت اورفوجی آمریتوں نے جمہوری حکومتوں کواحتساب کے نام پرلپیٹنے دیا۔ لیکن سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن صرف جمہوری حکمرانوں نے نہیں کئے۔ اس میں فوجی آمرجیسے جنرل مشرف بھی ملوث رہے۔ اب جنرل مشرف کو قتل وغارتگری اورکرپشن سے بچانے میں فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف اوران کے کمانڈرز، عدلیہ اورخود نوازحکومت کاہاتھ ہے۔ البتہ کمزورفوجی حکمرانوں جیسے جنرل مشرف نے اپنے اخری دورمیں پی پی پی کی بے نظیربھٹوکےساتھ این آراو پرمعاملہ کرکے سیاستدانوں اوربیوروکریٹس کے سینکڑوں کیس ختم کردئیے۔
پرانی اشرافیہ کی نمائندہ جماعتیں جن کواقتدارمیں حصہ ملاہوا اورفوجی اثرورسوخ اورعدلیہ کو غیرجمہوری گرداننے والے لبرل کے نزدیک جمہوریت بچاناضروری ہے۔ لیکن یہ جمہوریت کی نوعیت کوکم ہی زیربحث لاتے ہیں۔ موجودہ جمہوریت صرف ووٹ تک محدودہے۔ جمہوری پارٹیوں کے قائدین جیسے نوازشریف اورآصف زرداری اوراس پہلے الطاف حسین نے کبھی بھی جمہوریہ رویہ نہیں اپنایااورنہ ہی بڑی پارٹیوں جیسے مسلم لیگ ن اورپی پی پی میں اندرونی طورپرجمہوری رویوں کوفروغ دیاگیاہے۔
جمہوریت کے حامیوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی بڑی اکثریت کرپشن کوملک کاسب سے اہم مسئلہ قراردیتی ہے۔ عمران خان کی قیادت میں پروفیشنل اورمڈل کلاس کرپشن کے خاتمے اوراحتساب کواولیت دیتاہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ پرانے حکمرانوں پرہاتھ ڈالنے سے نئی ابھرتی ہوئی مڈل کلاس کے لئے آگے بڑھنے اوراقتدارمیں حصہ لینے کی راہ ہموارہوجائےگی۔ یہ وکلاء تحریک کے بھی نعرے تھے۔ دوسری طرف پرانی اشرافیہ کے نزدیک کرپشن سے زیادہ جمہوریت کی بقاء زیادہ اہم ہے۔ دیگرسمجھتے ہیں کہ کچھ ایساانتظام کیاجائے کہ سب کااحتساب بھی ہواورحقیقی جمہوریت بھی بحال ہوجائے۔ ایک عام پاکستانی کے نزدیک عوامی رائے عامہ کی بنیاد پرتشکیل کردہ شراکت داری پرمبنی جمہوریت کاقیام اورکرپشن کاخاتمہ اورحکمرانوں کااحتساب ضروری ہے۔
مضمون نگارکراچی میں مقیم محقق ہے۔
Tweet: @sartajku
فیس بک پر تبصرے