پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کا ہتھیار

923

جب پارلیمنٹ تنازعات کے حل اور بیانئے کی تشکیل میں کردار ادا نہیں کرتی تو یہ خود ایسے مواقع پیدا کرتی ہے جس سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے

وزیر اعظم نواز شریف  کے  خلاف  پانامہ پیپرز پر تحقیقات کے حوالے سے جے  آئی ٹی کے حالیہ رپورٹ نے  سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کر دیا ہے ۔اس نے  بڑھتے ہوئے سیاسی تعصب کے ساتھ ساتھ  ہمارے معاشرے کے اخلاقی دیوالیہ پن کو بھی طشت ازبام کر دیا ہے  جو حالیہ سالوں میں کافی بڑھ گیا ہے ۔

پاکستان کی سیاسی اقدار میں اب  غیر اخلاقی زبان کے استعمال ،غیر حقیقی الزام تراشیوں اور مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کو  قبول کر لیا گیا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اخلاقیات کے نام پر ہو رہا ہے ۔یہ صورتحال تما م جنوبی ایشیائی ممالک میں کہیں کم اور کہیں زیادہ  ہوجود ہے  مگر پاکستان میں بالخصوص اخلاقیات کا ہتھیار وہ طاقتیں استعمال کرتی ہیں  جو با اختیار ہیں یا پھر وہ کچھ سیاسی قوتوں کو بے اختیار کرنا چاہتی ہیں ۔

دلچسپی کے طور پر مقامی طرز سیاست میں  اخلاقیات کا متضاد غیر اخلاقیات نہیں بلکہ بد عنوانی ہے ۔سیاست اور سیاست دانوں کو اس لئے غیر مہذب سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ بدعنوان ہیں  اور انہوں نے عوام کے پیسے کو لوٹا یا ا س کا غلط استعمال کیا ۔پختہ کار سیاستدان  جاوید ہاشمی نے  مخصوص  سیاست دانوں کے  احتساب کی روش  کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔بدعنوانی ایک بیماری اور جرم ہے اور جس سے بھی سرزد ہو اسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے ۔لیکن جب آپ کا ہدف مخصوص لوگ ہی ہوتے ہیں تو نہ صرف سیاست اور قانون کی عمل داری مبہم ٹھہرتی ہے بلکہ اس سے غیر سیاسی عناصر کے لئے بھی راہ ہموار ہو جاتی ہے ۔

اخلاقیات کا مسئلہ ، ایک فرد  اپنے خیالات دوسروں پر تھوپنا چاہتا ہے ،یہ چلن پاکستان میں عام بھی ہے اور الجھا ہوا بھی ہے اور یہ صرف سیاست تک محدود بھی نہیں اور اس کے اثرات ہمارے رویوں کو متاثر کرتے ہیں مختلف ادارے ا س کو مختلف اندا زمیں بروئے کار لاتے ہیں ۔اخلاقیات ایک سماجی قدر ہے جو اپنا جواز مذہب سے یاپھر سماجی معاہدوں اور ثقافتی اقدار سے  اخذ کرتی ہے لیکن یہ کبھی بھی قانون کی حکمرانی کا متبادل نہیں بن سکتی ۔قانون کی عمل داری  جمہوریت، انسانی حقوق  اور سماجی انصاف  سے واضح ہوتی ہے ۔قانون کی عمل داری  نہ اخلاقیات اور نہ ہی جمہوری اور سیاسی عمل میں مداخلت کرتی ہے ۔مگر طاقتور اشرافیہ قانون کی عمل داری کو اخلاقیات سے  گُڈ مڈ کر دیتی ہے اور لوگوں کو یقین دلاتی ہے کہ  حاکمیت کے ڈھانچے کا انحصار صرف اخلاقی  معیارات پر ہے ۔

عوام قانون کی حکمرانی اور اخلاقیات کی بحث میں کیا سوچتے ہیں ؟پاکستان مسلم لیگ کی لیڈر شپ کہتی ہے کہ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ  انتخابی عمل کے ذریعے حکومت کی تقدیر کا فیصلہ کریں ۔تاہم عوامی حمایت قانون کی  برتری  کا متبادل نہیں ہو سکتی ، جیسا کہ عوام حکومت کو منتخب کرتے ہیں تاکہ وہ آئین کے تحت   قانون کی عمل داری یقینی بنائے ۔دوسرا حکومت  کی کارکردگی کا احتساب صرف ووٹ سے ہوگا نہ کہ کسی شخص کی وجہ سے جو قانون کو توڑتے ہوئے ایسا کرے ۔

مختلف ادارے اور گروہ  اپنا جواز  پیدا کر کے طاقت کے حصول کے لئے سرگرداں رہتے ہیں ۔ سماجی اور مذہبی معاملات میں مذہبی  گروہ یہ یقین رکھتے  ہیں کہ وہ اخلاقیات کے نگہبان ہیں اور اب عدلیہ بھی   اپنا فرض ِ منصبی سمجھتے ہوئے سیاسی اخلاقی ضابطہ بنانے  کی جستجو میں ہے ۔وہ ایک دوسرے کے لئے مسئلہ نہیں بن رہے باوجود اس کے کہ انہوں نے ایک دوسرے کے اخلاقی  معیار سے مطابقت پیدا کر لی ہے ۔

یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے بھی سیاسی  عزائم ہیں اور انہیں بعض معاملات پر اشرافیہ سے اختلافات بھی ہیں ،تاہم دونوں کے اختلافات ابھی تک حدودوقیود کے اندر ہیں اور دونوں کی کوشش ہے کہ نظام کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔ اس کی ایک مثال فوجی قیادت اور مذہبی جماعتو ں کے اتحاد متحدہ مجلس ِ عمل (ایم ایم اے ) کے درمیان 2002 میں لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) پر  اتفاقِ رائے تھاجس نے مشرف کو موقع دیا تھا کہ وہ فوجی وردی میں حکمرانی کر سکتے ہیں ۔اس کے بدلے میں اس کی بلوچستان اور  سرحد (کے پی ) میں  ایم ایم اے کی حکومتیں  نہ صرف محفوظ رہیں  بلکہ اس کے جواب میں اس کے ان ممبران ِ پارلیمنٹ کی سیٹیں بھی بچ گئیں جن کی مدرسہ ڈگریاں ،یونیورسٹی  ڈگریوں کے مساوی نہیں تھیں ۔

صوبہ سرحد کے اندر ایم ایم اے نے 2003 میں   حسبہ بل کے ذریعے اپنے اخلاقی حکم کو توسیع دینے کی کوشش کی  لیکن اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا جہاں اس کو کالعدم قرار دے دیا گیا ۔یہ ان کی طرف سے  اخلاقی حکم کو قانونی ڈھانچہ فراہم کرنے کی  کوشش تھی  مگر یہ ان کے طے شدہ کردار کی خلاف ورزی تھی اس لئے طاقتور اشرافیہ نے   اس کو روک دیا۔حالیہ سالوں میں مذہبی جماعتیں ،سماجی اور مذہبی میدان میں محدود ہو کر رہ گئی ہیں اور جب وہ اپنے اخلاقی  حکم  کے تحت سڑکوں پر احتجاج کرتی ہیں تو اشرافیہ  نے شاید ہی اس میں رکاوٹ ڈالی ہو ۔

تاہم سیاسی جماعتوں کوسیکورٹی اشرافیہ سے اس قسم کی شراکت  کبھی میسر نہیں رہی ۔انہیں بار ہا یہ یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ وہ سیکورٹی اشرافیہ کے وفادار رہیں بالخصوص اس وقت جب وہ ان کے معاملات میں دخل در معقولات کرتے ہیں ۔اس وقت بھی جب آئین کے تحت انہیں محدود کرنے کی کوشش کی  گئی ۔ ایم ایم اے کی جانب سے اخلاقی حکم نامہ کو قانونی شکل دینے کی کوشش ناکام ہو  گئی مگر اشرافیہ 1985 کے اندر آئین کے اندر 62-63 کی شقیں  شامل کروانے میں کامیاب ہو گئی ۔

کیا کوئی ایسا ادارہ (پارلیمنٹ )بھی موجود ہے جو اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا کرے ۔حیران کن بات یہ ہے کہ حکمران جماعت ، پارلیمنٹ کو کوئی اہمیت نہیں دیتی جس کی وجہ سے غیر سیاسی قوتوں کو موقع مل گیا کہ وہ اخلاقی میدان میں حکومت پر تنقید کریں ۔

یہ اخلاقی سوال اس وقت اور بھی زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے جب پارلیمنٹ کو طاقتور اشرافیہ بشمول سیاسی قوتوں کی جانب سے  خودمختار حیثیت نہیں ملتی ۔اس کا نقصان بالآخر سیاسی جماعتوں ، سیاسی عمل اور حکمران جماعت سے زیادہ کسی کو نہیں پہنچتا ۔جب پارلیمنٹ  تنازعات کے حل اور بیانئے کی تشکیل میں کردار ادا نہیں کرتی  تو یہ خود ایسے مواقع پیدا کرتی ہے جس سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔سیاسی قیادت میں یہ صلاحیت ہونی چاہئے کہ انہیں اپنے اہداف کا علم ہو نہ کہ وہ  اس گند میں پھنس کر رہ جائیں ۔

موجودہ سیاسی بحران نے سیاسی قیادت کو یہ موقع بھی فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے کردار پر نظر ثانی کریں ۔بالخصوص حکمران جماعت کو پارلیمنٹ کو اس کی حیثیت نہ دینے کے عمل پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔یہ پارلیمنٹ ہی ہے جو کہ قانون کی عمل داری ، احتساب اور شفافیت کو مضبوط کرتے ہوئے  اور  اداروں کے درمیان اعتماد کی فضا بناتے ہوئے  آئین کے  آرٹیکل 62-63 پر نظر ثانی کر سکتی ہے  ۔

کاغذوں کی حد تک پارلیمنٹ کوبرتر کہا جاتا ہے مگر  عملی طور پر سیاسی جماعتیں اسے اپنی طاقت کا جواز بنانے سے کتراتی ہیں اور وہ صرف اعلی ٰ سیاسی میدانوں میں کارفرما نظر آتی ہیں ۔شاید ’’سٹیٹس کو ‘‘ کو چیلنج کرنے کے مقابلے پر مخالفین کو چیلنج کرنا زیادہ سہل کام ہے ۔

( بشکریہ ڈان ، ترجمہ : سجاداظہر )

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...