ازدواجی زندگی کو متأثر نہ ہونے دیں
محبت ازل سے انسانوں کے درمیان اہم ترین جذبہ رہا ہے۔ عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے ایسی کشش محسوس کرتے ہیں جس کے سامنے بعض اوقات ہر چیز ہیچ ہوجاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان میں بھوک کے بعد دوسری طاقت ور جبلت جنس ہے جس کا اظہار محبت کے جذبے میں ہوتا ہے۔ انسانوں نے بے شمار لازوال کہانیاں، اشعار اس موضوع پر تخلیق کیے ہیں لیکن یہ جذبہ ہمیشہ کی طرح آج بھی تر و تازہ ہے اور دنیا کے بہترین ذہنوں کو تخلیقی طور پر ابھارتا رہتا ہے۔
جدید زندگی میں جہاں انسان کی نفسیات میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں وہاں یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ محبت بھی پہلے کی نسبت کچھ عارضی نوعیت کی چیز بنتی جارہی ہے۔ جدید انسان اپنی ہی ذات میں اس قدر ڈوبا ہوا ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے فرد کو اہمیت دینے کو تیار نہیں اور چوں کہ وہ کسی دوسرے کو اہمیت نہیں دیتا اس لیے اسے جواباً اہمیت ملتی بھی کم ہے۔ یوں آپس کے تعلقات مضبوط روابط میں نہیں ڈھل پاتے۔ شادی جو دو انسانوں کو ایک دوسرے سے مضبوطی کے ساتھ جوڑنے والا ادارہ ہے اور جو ہماری جنسی جبلت اور محبت کے جذبے کی تسکین کادرست اور اخلاقی اعتبار سے معاشرے کا پسندیدہ راستہ ہے یہ بھی دو انسانوں کے درمیان قربت پیدا کرنے میں زیادہ کام یاب نہیں ہوتا۔ بلکہ اکثر جوڑے یہ شکایت کرتے پائے جاتے ہیں کہ دوسرا فرد ان کی بات نہیں سمجھتا یا انھیں اہمیت نہیں دیتا۔ اس کا حل کیا ہے اور کیا ماہرین نفسیات روز مرہ زندگی کے ایسے مسائل کو بھی حل کرسکتے ہیں؟ اس معاملے میں بڑے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ایسے طریقے موجود ہیں جو شادی شدہ جوڑوں کے درمیان اچھے روابط استوار کرنے اور موجودہ روابط کو مضبوط کرنے میں معاون ہوسکتے ہیں۔
شادی شدہ جوڑوں کے درمیان معمولی نوک جھوک کوئی پریشان کن بات نہیں بلکہ یہ ازدواجی زندگی کے معمول کا حصہ ہے۔ اصل پریشانی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب یہ معمولی تکرار جھگڑے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ دونوں افراد ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے لگتے ہیں۔ سخت جملوں اور تلخ باتوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور بعض اوقات بات جسمانی لڑائی تک پہنچ جاتی ہے۔ ان حالات میں بعض اوقات دونوں یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک طرح کے جہنم میں رہ رہے ہیں، لیکن وہ اس بات کے بارے میں کم ہی غور کرتے ہیں کہ موجودہ حالت تک کیسے پہنچے۔ یہ بات بھی روز مرہ مشاہدے میں آتی ہے کہ عموماً شادی شدہ جوڑے اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز خوش گوار انداز میں کرتے ہیں۔ ان کے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور نیک خواہشات موجود ہوتی ہیں۔ مشاہدے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عموماً مسائل کا آغاز نہایت معمولی باتوں سے ہوتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ منفی محسوسات کو کیسے اپنے قابو میں رکھا جائے؟ دو افراد کے درمیان ایسی باتوں کا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں جو ناخوش گوار ہو۔ بعض اوقات شادی کے ابتدائی دنوں میں جو باتیں دل چسپ معلوم ہوتی ہیں کچھ مدت گزرنے کے بعد وہی ناپسندیدہ ٹھہرتی ہیں۔
زیادہ تر ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایسے جوڑوں کو کسی نفسیاتی علاج سے زیادہ اچھی تعلیم اور راہ نمائی کی ضرورت ہے۔ انھیں اس بات کو جاننا چاہیے کہ تعلقات کس طرح بنتے، پروان چڑھتے اور کمزور یا طاقتور ہوتے ہیں؟
ماہرین نفسیات نے اس پہلو پر بھی غور کیا ہے اور زیادہ تر ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایسے جوڑوں کو کسی نفسیاتی علاج سے زیادہ اچھی تعلیم اور راہ نمائی کی ضرورت ہے۔ انھیں اس بات کو جاننا چاہیے کہ تعلقات کس طرح بنتے، پروان چڑھتے اور کمزور یا طاقتور ہوتے ہیں؟ اچھے تعلقات بنانا اور قائم رکھنا ایک مہارت ہے جسے ہر کوئی سیکھ سکتا ہے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو حسب منشا استوار کرسکتا ہے۔ شادی شدہ جوڑوں کو یہ بات سیکھنا ضروری ہے کہ وہ کیسے ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کی موجودگی میں خوش گوار زندگی گزار سکتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کی سوچ میں آنے والی اس تبدیلی نے کہ مسائل کا شکار شادی شدہ جوڑوں کو نفسیاتی طریقہ علاج کی نہیں بلکہ شعور کی ضرورت ہے۔ ذہنی صحت کے شعبے میں اہم تبدیلی پیدا کی ہے۔ اس سلسلے میں ضروری بات یہ ہے کہ لوگوں کو ضروری نفسیاتی مہارتیں سکھائی جائیں۔ جسے آپ نفسیاتی تعلیم کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ نفسیاتی تعلیم سے مراد ہے لوگوں کو ایسا علم دینا جس کی بنا پر وہ اپنی مدد آپ کرسکیں۔ اس بات نے علاج سے پرہیز بہتر ہے کہ کہاوت کو مزید بامعنی بنا دیا ہے۔
شادی شدہ جوڑوں کے بارے میں جو تحقیقات کی گئی ہیں وہ یہ بتاتی ہیں کہ اکثر جوڑے شادی کے ابتدائی برسوں میں اپنی ازدواجی زندگی میں الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اکثر جوڑے ازدواجی زندگی کے حقائق کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں اور ایک طرح کی رومانوی فضا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے یہی کافی ہے مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ ازدواجی زندگی صرف محبت کے سہارے نہیں گزر سکتی اس میں بہت سی دوسری باتیں بھی اہم ہوتی ہیں۔ شادی شدہ جوڑوں کو یہ مہارت سیکھنا ہوتی ہے کہ آپس کے اختلافات پر کیسے قابو پانا ہے اور معمولی اختلافات کو سنگین تنازع بننے سے کس طرح روکنا ہے؟ جو جوڑے یہ بات سیکھنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں وہ خوش گوار زندگی گزارتے ہیں۔
شادی شدہ جوڑوں کے لیے نفسیاتی تعلیم کو سائنسی خطوط پر استوار کیا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ایک پرلطف اور رومانوی چیز ہے۔ جب دو افراد ایک دوسرے کے مسائل اور نقطہ نظر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے بہت قریب آجاتے ہیں۔ دو افراد کے درمیان موجود غلط فہمیوں کو دور کرنے کا آغاز اپنی ذات کی آگاہی حاصل کرنے، اپنی عزت نفس کا خیال رکھنے، اس بات کو سمجھنے کہ دوسرا کیا چاہتا ہے اور دوسرے کی باتوں کو اہمیت دینے سے ہوتا ہے۔ بعض ماہرین نفسیات اسے اپنی ذات میں ’’آگاہی کا پہیہ‘‘ لگانے سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا نقشہ ہے جو جوڑوں کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی باطنی ذات کے بارے میں معلومات، خیالات، محسوسات، خواہشات، اعمال وغیرہ کی آگاہی ایک منظم طریقے سے حاصل کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ اس نوعیت کی معلومات کے تبادلے سے جوڑے یہ سیکھتے ہیں کہ آپس میں بات چیت کرنے کا موثر طریقہ کیا ہے؟ یہ ایک سادہ مگر موثرطریقہ ہے۔
نفسیاتی تعلیم میں اس بات کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ اکثر لوگ زندگی میں صرف اپنے نقطہ نظر کو اہم جانتے ہیں اور کسی دوسرے فرد کو اہمیت دینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اگر آپ کسی کو مسلسل نظرانداز کرتے رہیں اور اسے کمتر ہونے کا احساس دلاتے رہیں تو ظاہر ہے وہ بھی اس کے جواب میں آپ کے بارے میں اسی نوعیت کے خیالات کا اظہار کرے گا۔ اس لیے اس بات کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے کہ کسی بھی تصادم کی صورت میں دونوں افراد کو ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو اسی کے زاویے سے سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ شادی شدہ زندگی میں فرد کو ایک مددگار، ایک دوست اور ایک ہمدرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لازمی بات ہے جب تک آپ اپنے شریک حیات کو یہ یقین نہیں دلائیں گے کہ آپ اس کے لیے ساری باتیں اپنے اندر رکھتے ہیں، دوسرے سے ان باتوں کی توقع بے کار ہوگی۔ اس لیے نفسیاتی تعلیم میں اس بات پر بہت زور دیا جاتا ہے کہ دوسرے کی بات کو ہمدردی سے سنا جائے اور ہمدردانہ انداز میں ردعمل کا اظہار کیا جائے۔ جوڑوں کو یہ بات سیکھنا ہوتی ہے کہ وہ کس طرح صاف گوئی سے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت یوں کریں کہ دوسرے کو اس سے صدمہ نہ پہنچے۔ مثلاً اگر آپ کو اپنے شریک حیات کی کسی بات سے دکھ پہنچا ہے اور آپ کو دلی صدمہ ہوا ہے تو آپ اسے اس انداز میں اپنی شکایت سے آگاہ کریں کہ وہ اپنے رویے کو بدلنے پر مجبور ہو جائے۔ جب شریک حیات ایک دوسرے کو اپنی شکایت سے آگاہ کرتے ہیں تو اصل میں دونوں ہی کے اندر تبدیلی کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو زیادہ بہتر انداز میں قبول کرنے لگتے ہیں، یوں تعلقات کو بہتر بنانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
وہ شادی شدہ جوڑے جن کی زندگی میں تلخی گھل چکی ہے وہ بھی ایک بار اپنے معاملات پر غور کرکے انھیں بہتر بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ عموماً چار باتیں ایسی ہیں جو شادی شدہ جوڑوں کو ایک دوسرے سے بدظن کرتی ہیں۔ ایک دوسرے پر بہت زیادہ تنقید کرنا، ایک دوسرے کے معاملات کا خیال نہ رکھنا، بہت زیادہ وضاحتیں کرنا اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنا۔ یہ باتیں تقریباً ہر شادی شدہ جوڑا اپنی زندگی میں ضرور کرتا ہے لیکن جب یہ بہت زیادہ ہونے لگیں تو تعلقات پر بہت زیادہ ناخوش گوار اثر ڈالتی ہیں۔ اس سلسلے میں مشہور ماہر نفسیات گوٹ مین نے شادی شدہ زندگی کو بکھرنے سے بچانے کے لیے بعض ضروری تدابیر کی نشان دہی کی ہے۔ پہلی بات تو وہ یہ کہتا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ایک دوسرے کے بارے میں مثبت نقطہ نظر رکھیں، منفی باتوں کو نظر انداز کریں، گوٹ مین کے خیال میں اچھے شادی شدہ جوڑے ہمیشہ ایک دوسرے کے بارے میں اچھی باتیں جاننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس میں خاص طور پر شوہر کو اپنی بیوی کے حوالے سے اچھے انداز میں سوچنے اور محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ گوٹ مین نے مندرجہ ذیل پانچ اہم باتوں کی نشان دہی کی ہے جو ٹوٹتی شادی کو بچانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں:
۱۔ جب کسی جوڑے کو ایک دوسرے سے شکایات پیدا ہو جائیں تو وہ ایک دوسرے کے سامنے اپنی شکایات کا اظہار دھیمے لہجے اور نرم الفاظ میں کریں۔ ایک دوسرے پر تنقید کرنے سے گریز کریں۔ تنقید سے مخالف فرد دفاعی انداز اپناتا ہے اور آپ کے نقطہ نظر کو نہیں سمجھتا۔
۲۔ آپ کا شریک حیات اگر کوئی درخواست کرے تو اس پر مثبت ردعمل کا اظہار کریں۔ اچھی شادی میں میاں بیوی دونوں ایک دوسرے سے اثرات قبول کرتے ہیں۔ چوں کہ عموماً بیویاں اپنے شوہر کے اثرات قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتیں اس لیے شوہروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بیویوں سے اچھے اثرات قبول کرلیں۔ شادی کو کام یابی سے ہم کنار کرنے میں شوہر کا کردار مرکزی ہوتا ہے۔
۳۔ تعلقات میں آنے والی تلخی اور ناخوش گواری کو ہر قیمت پر ختم کریں۔ جب تک آپ اپنے ناخوش گوار تعلقات کو نئے سرے سے اچھی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ حالات میں تبدیلی نہیں آئے گی۔
۴۔ مرد عموماً تنازعے یا جھگڑے کی صورت میں جلد غصے میں آجاتے ہیں اور جسمانی اشتعال انگیزی شروع کردیتے ہیں۔ اس سے بچنے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ گرما گرم بحث کے دوران دونوں میں سے کوئی ایک معاملے پر غور کرنے کے لیے وقت مانگے اور کم از کم بیس منٹ کے بعد دوبارہ گفتگو کا آغاز کیا جائے۔
۵۔ کام یاب شادی شدہ زندگی میں جوڑے عموماً جھگڑے کو نمٹانے کے لیے کوئی مزاحیہ یا پیار بھری بات کردیتے ہیں۔ اس سے دونوں کے درمیان تلخی کم ہو جاتی ہے۔
آپ بھی اپنی ازدواجی زندگی میں مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں، بشرطیکہ آپ اپنے آپ کو اور اپنے شریک حیات کو غیر مشروط طور پر قبول کرلینے اور اپنے تعلقات میں پڑنے والی دراڑ کو پاٹنے کی کوشش کریں۔
فیس بک پر تبصرے