قدامت پسند ایرانی شدید ردِ عمل کے ذریعے موجودہ صدر کو کنارے لگا کر خود برسرِ اقتدار آنا چاہتے ہیں

900

روحانی کے حمایتی کہتے ہیں کہ خامنہ ای اور اس کے پیروکارصدارتی اختیار کو محدود کررہے ہیں یا اُس کی جگہ کسی اور کو لا رہے ہیں۔

مرتب :پیٹر گراف

ایران او ر مغرب کے مابین نیوکلیئر معاہدے کے ایک سال بعد،قدامت پسند وں کا حلقہ اثر ایک منفی گروہ کی صورت وسیع ہورہا ہے ، جن کی منشا یہ ہے کہ حالات کی نزاکت کو سمجھنے والے صدرحسن روحانی کے خلاف ایسا ردِ عمل ظاہرکریں کہ اگلے سا ل کے انتخابات میں اُسے کنارے لگادیں یا سیاسی طور پر کمزور کردیں۔

ایران کی سفارتی تنہائی کے خاتمے کے وعدے پر ،حسن روحانی دوہزار تیرہ میں بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے تھے۔معاہدے کے نتیجے میں تہران کے جوہری پروگرام پر پابندیوں کے بدلے میں مالی پابندیاں ہٹادی جائیں گی۔

سپریم لیڈر خامنہ ای کی طرف سے معاہدے کوطوعاًو کرہاًتسلیم کیا گیا، قدامت پسندوں کے سرخیل جو کہ انیس سو نواسی سے برسرِ اقتدار رہے ہیں ،اور جس کے اختیار کا دائرہ منتخب صدر سے بھی بلند درجہ رکھتا ہے۔

لیکن اب مذاکرات ختم ہو چکے ہیں ،روحانی کے حمایتی کہتے ہیں کہ خامنہ ای اور اس کے پیروکارصدارتی اختیار کو محدود کررہے ہیں یا اُس کی جگہ کسی اور کو لا رہے ہیں۔اس طرح کے دباﺅ میں ،حسن روحانی انتخابات میں دوبارہ کھڑے نہ ہونے کا خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں ۔

پہلے ہی قدامت پسند الزام لگارہے ہیں کہ معیارِ زندگی میں  تیزی سے بہتری فراہم کرنے کے معاملے میں صدارتی گروہ ناکام ہو چکے ہیں ۔ایک ایسے وقت میں جب تیل کی برآمدات کے لیے قیمتیں کم ہیں اورجس غیر ملکی سرمایہ کاری کا وعدہ تھا،ابھی پورا نہیں ہوا۔ایک سینئرسرکاری اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے پر بتایا”ایران میں سیاسی کشمکش میں شد ت آچکی ہے اوراسٹیبلشمنٹ کی قانونی حیثیت کو خطرہ ہے“”یہ امر  اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات کو مزیدپیچیدہ کرے گا“سرکاری اہلکار نے مزید کہا کہ روحانی خود جانتا ہے کہ ”اقتدار کی دوسری مدت کو چلانے کے لیے سنجیدہ شبہات ہیں “حسن روحانی کے اتحادی اُس کی ذاتی مقبولیت پر یقین رکھتے ہیں اور اس کا امکان ہے کہ ایران اپنی سیاسی اور معاشی تنہائی سے باہر نکل آئے گا،جبکہ خامنہ ای کے قدامت پسند اتحادی بوکھلاہٹ کا شکا رہیں،جنہیں اپنا اقتدار کھونے کاخوف ہے اور اس صورت میں اُن کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ صدر کو اپنے اشاروں پر چلائیں۔

جب ایرانی حکام سے دوسرے اعداد و شمار کی طرح اس سٹوری کے لیے رابطہ کیا گیا تو ایک اصلاح پسند سابق سرکاری اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ”قدامت پسند ایک ایسا صدر چاہتے ہیں جو اُن کے کیمپ کے قریب ہو اور خامنہ ای کے اتحادیوں سے رہنمائی لے“” اگروہ ایک اُمیدوار تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں ،تب وہ روحانی کی دوسری مدت اقتدار پر مزید پابندیاں عائد کریں گے “

انقلابی نظریہ

ایران کا سیاسی نظام صدر اور پارلیمنٹ کے لیے انتخابات کی اجاز ت تو دیتا ہے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسا سخت اصول پسندگروہ تشکیل دیتا ہے جس کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ قانونی طور پر کسی بھی اُمیدوار کی اہلیت کا فیصلہ کرسکتاہے۔

چھہتر سالہ خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ خمینی سے جب سے اقتدار لیا ،اُس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی بھی گروہ ،بشمول اُس کے قدامت پسند اتحادیوں کے ،اتنی سیاسی طاقت حاصل نہ کرسکیں کہ اُس کے اپنے اختیار کو چیلنج کر دیں ۔ خامنہ ای کے اتحادی مالی وسائل کے بڑے حصے کے ساتھ ساتھ ،عدلیہ،سکیورٹی فورسز ،عوامی نشریات اور گارڈین کونسل کو کنٹرول کرتے ہیں جبکہ گارڈین کونسل کا کام کسی بھی اُمیدوار کی ذاتی زندگی اور کیرئیر کے بارے میں کھوج لگانا ہے تاکہ وہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ کوئی بھی اُمید وار اس خاص مقصد کے لیے مناسب ہے یانہیں۔

ایران کے سینئر تجزیہ کار کریم سجاد پور نے کہا کہ ”خامنہ ای کے لیے مثالی نظام ایسے کمزور صدر ہیں جو بہت سے ایرانیوں کی محرومیوں اور معاشی بے چینیوں کے جواب دہ ہیں “

اُس نے کہا کہ ”خامنہ ای کے لیے راے دہندگان کی حمایت کی بجائے اُس طاقت کی اہمیت زیادہ ہے جو اُن کے ملکی نظام کو کنٹرول کرتی ہے “

کریم سجاد پور نے فوجی اشرافیہ اور اُس سے الحاق شدہ فوج کا حوالہ دیتے ہو ئے کہا کہ ”خامنہ ای ایران کی اشرافیہ کی مداح سرائی اور سوشل میڈیا پر پسندیدگی کے بغیر رہ سکتا ہے ،لیکن وہ ڈیڑھ لاکھ انقلابی سپاہیوں اور اُن کے حاشیہ بردار کی حمایت کے بغیر نہیں رہ سکتا“

مذاکرات ختم ہو چکے ہیں

ایران کی خطرناک معاشی صورتِ حال نے ،ایران کے اعلیٰ رہنماﺅں کو مجبور کیا کہ وہ حسن روحانی کو بہترین آپشن کے طورپر،مغرب کے ساتھ نیوکلیئر تنازع کوحل کرنے کے لیے قبول کر لیں ۔لیکن روحانی کے اتحادی یقین رکھتے ہیں کہ خامنہ ای سے قربت رکھنے والے، روحانی کو اپنے لیے مزید فائدہ مند نہیں دیکھتے۔

حسن روحانی کے ایک اتحادی کے مطابق”اب نیوکلیئر بحران ختم ہو چکا ہے ۔قدامت پسند ،روحانی کو کمزور کرکے اُس سے اقتدار واپس لینا چاہتے ہیں ۔اگلے سال الیکشن میں کامیابی قدامت پسندوں کی اقتدار پر گرفت کو مضبوط کرے گی“”حسن روحانی ایران کے نیوکلیئر مسئلے کو حل کرنے کے لیے منتخب ہوا تھا“

حالیہ مہینوں میں خامنہ ای نے انقلابی نظریہ اور مزاحمت آمیز معیشت کی اہمیت کے بارے میں بات کی اور روحانی کی مغرب کے ساتھ معاشی اور سیاسی پالیسیوں کو درپردہ تنقید کے طور پر دیکھا ۔

ابھی تک واضح طور پر روحانی کے خلاف کوئی مخالف صف آرا نہیں ہے ۔لیکن قدامت پسند آنے والے مہینو ں میں ہائی پروفائل اُمیدوار پر اتفاق رائے پر پہنچ جائیں گے۔

Interdisciplinary Center Herzliya اسرائیل میں ایک ایرانی نژاد اسرائیلی لیکچرار میر جاوید انفر نے ایران پر یہ بات کہی کہ”روحانی کی دنیا کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی….قدامت پسندوں کو خوفزدہ کرتی ہے ،جیسا کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ بغیر محاذ آرائی کے ،خاص طور پر مغرب کے ساتھ ،اسلامی جمہوریہ ایران، انقلابی ریاست بننے سے رُک سکتا ہے“اُس نے مزید کہاکہ”قدامت پسندوں کو اس بات کا بھی خوف ہے کہ آخرِ کاریہی صورتِ حال اسٹیبلشمنٹ کے زوال کا باعث بنے گی“

بلند توقعات

قدامت پسند معاشی بحالی کی سست رفتار پر حسن روحانی پر کڑی تنقید کررہے ہیں ۔ایرانی نیوکلیئر پروگرام پر سمجھوتہ ،اُس کی حکومت کو بے وقوف بنا کر کیا گیا ،جب کہ بدلے میں بہت کم فائدہ دیا گیا ہے۔

سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی میں ایرانی سٹڈیز کے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹرعلی انصاری کہتے ہیں ”یقینی طور پر اس وقت توجہ کا مرکز معیشت ہے ،جو آمدہ انتخابات کے لیے میدان جنگ بنے گی“”حسن روحانی نے معاہدے سے جو توقعات پیدا کی تھیں ،اُن تک پہنچنا مشکل ہو رہا تھااور قدامت پسندوں کی طرف سے تیزی سے پھیلتی ہوئی مایوسی کی بلاشبہ حوصلہ افزائی کی گئی “

امریکہ کی یک طرفہ پابندیاں جو اپنی جگہ موجود ہیں، ان کی وجہ سے جزوی طور پر بہت سے یورپین بینک اور سرمایہ کار ایران کے ساتھ اپنا کاروبار محدود کر رہے ہیں۔اب تک،ایران کے صرف چھوٹے مالی اداروں کے ساتھ بینکاری کے رابطے ہیں اورامریکی بینکوں کے لیے ایران کے ساتھ بالواسطہ یابلاواسطہ کاروبار ممنوع ہے۔غیرملکی سرمایہ کاروں کو دوسرے خطرات کا بھی سامنا ہے،جیساکہ پیچیدہ قواعد کا نظام،ایرانی بینکاری نظام میں شفافیت کی کمی،تنازعات کے حل کا غیر واضح نظام،لیبر کے مسائل اور کرپشن۔ متوقع معاشری بہتری میں ناکامی کی وجہ سے بہت سے عام ایرانیوں میں بے زاری کا احساس پیدا ہوا اور روحانی کی حکومت سماجی پابندیوں کو نرم کرنے کی اُمیدفراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے ۔

روحانی کی حکومت کی کچھ اعلیٰ عہدے داروں کی پے سلپ مشتہر ہونے کی وجہ سے بدنام ہوئی جوکہ ایک عام ایرانی شہری کی ماہانہ اوسط آمدنی سے درجنوں گنا زیادہ تھی۔اس خبر کو عام کرنے کا ذریعہ معلوم ہونا ابھی باقی ہے ۔ایک بتیس سالہ سرکاری ملازم رضا ،جس نے روحانی کو ووٹ دیا تھا، کا کہنا تھا” مَیں اپنے گھر کا کرایہ دینے کی جدوجہد کر رہا ہوں اور ان لوگوں کی تنخواہ ملاحظہ کریں؟یہ لوگوں کی صرف اُس وقت پرواہ کرتے ہیں ،جب انہیں آپ کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے“

شکریہ ”رائٹرز“ترجمہ :احمد اعجاز

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...