نواز شریف کو کو ن سےچھ چیلنج درپیش ہیں ؟

1,017

اگرچہ نواز شریف اپنی بیماری سے پہلے بھی کئی چیلنجوں سے نبرد آزما تھے تاہم ان کے بیرون ِ ملک قیام کے بعد کئی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں

ملک سے باہر گزارے ان کے 48 دنوں میں مخالفین کو بھر پور موقع میسر آیا کہ نواز شریف  کے بارے میں افواہوں کا بازار گرم رکھ سکیں مگر اپنی واپسی سے انھوں نے مخالفین کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ مقابلے کے لئے میدان میں اتر چکے ہیں ۔تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے سات  بڑے چیلنجوں کا سامنا کس طرح کرتے ہیں کیونکہ اسی طرح  یہ معلوم ہو سکے گا کہ وہ اپنا دور ِ اقتدار مکمل کریں گے یا پھر طاقت کے ایوانوں میں گردش کرنے والی افواہوں کو حقیقت ملے گی ۔وزیر اعظم پاکستان 22 مئی کو دل کے آپریشن کے لئے ملک سے باہر گئے تھے ۔ا س وقت سے صحت کے مسائل کو جواز بنا کر ان  کے استعفے  کے خبریں زیر گردش ہیں۔جبکہ دوسری جانب  آپریشن کے بعد اپنے ڈاکٹروں کے مشورے سے وہ  لندن کی گلیوں  میں گھومتے بھی دیکھے گئے  مگر ان کے چہرے پر کشیدگی کے آثار نمایاں نظر آئے  ۔

اگرچہ نواز شریف اپنی بیماری سے پہلے بھی کئی چیلنجوں سے نبرد آزما تھے تاہم ان کے بیرون ِ ملک قیام کے بعد کئی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں ۔پرانے چیلنج تووہیں پر ہیں لیکن کئی نئے بھی سر اٹھا چکے ہیں ۔جن کا جائزہ ذیل میں لیا جاتا ہے ۔

چیلنج :1

ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نواز شریف کے لئے وطن واپسی پر سب سے بڑا چیلنج پانامہ لیکس کا ہی ہے جس  نے دو بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے تاکہ وہ حکومت کے خلاف محاذ کھول سکیں ۔سینئر صحافی اور آزاد مبصر زاہد حسین کا کہنا ہے کہ ” مانامہ لیکس کا مسئلہ ابھی بھی تازہ ہے جس نے اپوزیشن جماعتوں کو ایک دوسرے سے قریب کر دیا ہے ۔اس صورتحال سے نمٹنا نواز شریف کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔کیونکہ ان کے خلاف پہلے ہی الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کیا جا چکا ہے تاکہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو نا اہل قرار دلوایا جا سکے ۔

چیلنج :2

نواز شریف کو دوسرا بڑا چیلنج قانونی محاذ پر درپیش ہے ۔کیونکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے وزیر اعظم کو  ٹی او آرز کمیٹی میں شامل حزب مخالف کی 9 جماعتوں  جن میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سب سے اہم ہیں کو ہی مطمئن نہیں کرنا  بلکہ انھیں فوری طور پر الیکشن کمیشن کے 5 ممبران کو تعینات بھی کرنا ہے جنھوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں آئے ہوئے ریفرنس کا فیصلہ کرنا ہے ۔

الیکشن کمیشن کے چار ممبران جو کہ چار وں صوبوں کی نمائندگی کرتے ہیں وہ گزشتہ 12جون سے ریٹائر ہوچکے ہیں ۔اس سال سے 32 انتخابی شکایات جن میں انتخابات کاا علان بھی شامل ہے وہ زیر التوا ہیں ۔کیونکہ آئین کی رو سے غیر مکمل الیکشن کمیشن کوئی کام نہیں کر سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ریفرنس پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی جب تک کہ الیکشن کمیشن مکمل نہیں ہو جاتا۔اس حوالے سے اپو زیشن لیڈر خورشید شاہ اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان پیر کے روز اپنے اپنے امیدواروں کے ناموں کے بارے میں تبادلہ خیالات بھی ہو گا جس میں دونوں اپنی اپنی جانب سے نام پیش کریں گے ۔دونوں جماعتیں بھر پور کوشش کریں گی کہ الیکشن کمیشن میں  زیادہ سے زیادہ اپنے نامز دممبران کو جگہ دے سکیں   کیونکہ انھوں نے ہی آگے چل کر وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے بارے میں ریفرنس کا فیصلہ کرنا ہے ۔اس طرح الیکشن کمیشن کی تکمیل وزیر اعظم پاکستان کو درپیش دوسرا بڑاچیلنج ہو گا ۔اگر نواز شریف ٹی اوآرز کمیٹی  اور الیکشن کمیشن کے ممبران کی تعیناتی کا مسئلہ حل نہیں کر پاتےتو 9 جماعتوں کا اجلاس 14 جولائی کو خورشید شاہ کی صدارت میں پارلیمنٹ ہا ئوس میں ہونے جا رہا ہے جس میں  ان کے خلاف کوئی مشترکہ حکمت عملی بھی سامنے آ سکتی ہے جس سے ان کے لئے مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔اگر انھوں نے سڑکوں پر آ کر احتجاج کا اعلان کر دیا تو اس سے ایک نیا بحران جنم لے گا۔

خورشید شاہ کو پہلے ہی اپنی جماعت کے سربراہ بلاول بھٹو کی جانب سے ہدایت مل چکی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے خلاف سخت پالیسی اختیار کریں ۔نواز شریف بھارت کے ساتھ قیام امن کے لئے جو اقدامات کر رہے ہیں ان کے خلاف بلاول بھٹو کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ وہ کس کے اشارے پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں ۔

چیلنج: 3

بلاول بھٹو کے قریبی ساتھی یہ بتاتے ہیں کہ اگلے دو سے تین ہفتوں میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان رابطوں میں اور زیادہ قربت آ جائے گی جس کا مقصد عمران خان اور بلاول بھٹو کو ایک میز پر بٹھانا ہے ۔پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ دونوں رہنمائوں کو ایک میز پر بٹھانے کے سلسلے  میں پہلے ہی کافی پیش رفت ہو چکی ہے اور اب صرف کچھ چیزوں کا تعین کرنا باقی ہے “۔بلاول بھٹو اور عمران خان کا ایک ہی میز پر بیٹھنا وفاقی حکومت کے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں ہو گا اس لئے وہ کوشش کرے گی کہ ایسا کسی صورت نہ ہونے پائے ۔

چیلنج: 4

وزیراعظم نوز شریف کے لئے چوتھا بڑا چیلنج ان کی اپنی جماعت کے اندر ہی تین درجن کے قریب ممبران اسمبلی کی بغاوت ہےجو کابینہ کے کچھ وزراء کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ۔انھوں نے بجٹ اجلاس کے دوران اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا اور اگر اس دوران سیاسی ماحول میں تبدیلی آتی ہے تو یہ ممبران حکومت کے لئے مزید مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں ۔

چیلنج : 5

نواز شریف کے لئے فوری چیلنج آزاد کشمیر کے انتخابات کا ہے جہاں ان کی جماعت 21 جولائی کو ہونے والی انتخابات میں صف آراء ہے ۔کیونکہ اگر ان انتخابات میں ان کی جماعت ہار جاتی ہے تو اس کا براہ ِ راست اثر  پاکستان میں ان کی مقبولیت پر بھی ہو گا ۔

چیلنج: 6

یہ بات اظہر امن الشمس ہے کہ ان مسائل کے اثرات سول ملٹری تعلقات پر بھی پڑیں گے جوسیاسی شطرنج پر سجائی جانے والی بازیوں میں  فیصلہ کن کردار ادا کریں گے ۔ کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کو کچھ عرصہ قبل بالواسطہ طور پر تینوں سروسز چیف کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کا پیغام دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس میں سب سے اہم پہلو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میںن توسیع کا ہے. کسی سیاسی ہنگامے کی صورت میں فوج کیا کردار ادا کرے گی ؟ اس بارے میں دو ٹوک رائے نہیں دی جا سکتی کیونکہ ماضی میں سیاسی ہنگامی صورتحال میں فوج کے سیاسی کردار کی مثالیں موجود ہیں ۔ اقتدار کے حلقوں میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ مدت ملازمت میں توسیع ترجیحی بنیادوں پر نئے وزیر اعظم کے ہاتھوں ہی قابل قبول ہو گی ۔لیکن یہ سب وزیراعظم نواز شریف کے مندرجہ بالا پانچ چیلنجوں سے نمٹنے پر ہی منحصر ہے کہ وہ پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی غیر ممکنہ اتحاد کو توڑ کر اپنی مدت پوری کرتے ہیں اور نئے آرمی چیف کا انتخاب بھی

حکومت کا مئوقف

تاہم دوسری جانب حکومت کا خیال ہے کہ اس کا اصل چیلنج ترقیاتی پالیسیاں ہیں ۔وفاقی وزیر ِاطلا عات پرویز رشید نے حکومت کو درپیش حساس نو عیت کے چیلنجوں سے قطع نظر یہ کہا کہ “ہماری ترجیحات ترقیاتی ہیں اور ان میں پہلی ترجیح پاک  چین اقتصادی راہداری ہے ۔پرویز رشید کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری حکومت ہمسایوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا چاہتی ہے اور اپنے ملک کو دہشت گردی کے خلاف ایک نیا بیانیہ دینا چاہتی ہے ۔

اعزاز سید جیو نیوز سے وابستہ سینئر صحافی ہیں ۔ان  کا شمار تحقیقی صحافیوں میں ہوتا ہے ۔ ان کی ایک  کتاب “The Secrets of Pakistan’s War on AlQaeda” گزشتہ سال شائع ہوئی )

(انگریزی سے ترجمہ : سجاد اظہر )

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...