ہائی پروفائل غیر ملکی باشندوں کا اغوا،طالبان کے لیے منافع بخش معاملہ ہے

1,038

تباہ حال افغانستان کی جنگ میں غیر ملکی شہریوں یا عسکری حکام کا اغوا ،طالبان کے لیے اُن کی مہم میں سود مند ہے

ہائی پروفائل غیر ملکی ،خاص طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے باشندوں ،اس کے ساتھ ساتھ افغان اعلیٰ شخصیات کا اغوا،افغان طالبان کے لیے قیدی ساتھیوں کی رہائی یا بھاری تاوان کی وصولی کے لیے ہمیشہ منافع بخش معاملہ ثابت ہوئے ہیں ۔طالبان ذرائع کے مطابق ،اب تک ،امریکی سپاہی بوئی برگدال(Bowe Bergdahl )ثابت کرچکا ہے کہ تباہ حال افغانستان کی جنگ میں غیر ملکی شہریوں یا عسکری حکام کا اغوا اُن کے لیے اُن کی مہم میں ” سب سے مفید شکار “ہے۔2009ءمیں پاکستانی سرحد پر ،پرآشوب قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کے قریب ، افغانستان کے شورش زدہ صوبہ پکتیکا ، سے اُس کو اغوا کرنے کے بعد،2014میں،طالبان نے گوانتاناموبے میں قید اپنے پانچ اعلیٰ کمانڈر آزادکروالیے۔

ظاہر ہے ،طالبان اُس کی اہمیت کو جانتے تھے اور بوئی برگدال کواپنا ”خاص مہمان اور ایک قیمتی پرندہ“کہہ کر پکارتے تھے۔طالبان کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن بوئی برگدال سے تبادلے کے طور پر گوانتاناموبے سے اپنے قیدیوں کو حاصل کرلیں گے اور وہ اپنے اس سودے میں کامیاب ہوئے۔وہ پانچ گوانتاناموبے کے قیدی ،اس وقت قطر میں اپنے خاندان کے لوگوں کے ہمراہ آزادانہ زندگی بسر کررہے ہیں ۔ افغان طالبان کو قطر میں ،افغان تنازعے کے پُراَمن تصفیہ ،اُن کے ساتھ رابطوں کے لیے،دفتر قائم کرنے کی اجازت دینے کے بعد،یہ امریکہ اور افغان طالبان کے مابین پہلے براہِ راست مذاکرات تھے۔بوئی برگدال کے علاوہ ،طالبان عسکریت پسند ایک بڑی تعداد میں دوسرے غیر ملکی باشندوں،اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ افغان شخصیات کو اغوا کرتے تھے اور مذاکرات جوکہ طالبان قیدیوں کی محفوظ آزادی یا بھاری تاوان پر ختم ہوتے تھے، بعد میں اُنہیں آزاد کردیتے تھے۔افغانستان کے صوبے ہلمند میں ایک سینئر طالبان رہنما کے مطابق”ہمارے میدان میں اغوا بہت زیادہ نفرت انگیز کام ہے،لیکن یہ ایک ناگزیر صورتِ حال میں کیا جاتا ہے ۔ہم اس کا یقین رکھتے ہیں کہ یہ دنیا بھر میں ہمارے تاثر کو خراب اور ہمارے جنگجوﺅں کے درمیان بری مثال قائم کرے گا“نام نہ ظاہر کرنے پر ،اُس نے کہا کہ اغوا کے منصوبے پوری طرح زیرِ بحث لائے جاتے ہیں اور اُن کی اجازت طالبان کی مضبوط فیصلہ ساز ”رہبری شوریٰ“سے لی جاتی ہے ۔حالیہ اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بارے میں سینئر طالبان ارکان کا کہنا تھا کہ ”اس سب کا مقصد نیٹواورافغان حکومت پر دباﺅ بڑھانا ہوتا ہے کہ وہ طالبان قیدیوں کو رہا کریں “اُس نے مزید کہا کہ ”طالبان نے مختلف اوقات میں قطر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مطالیہ کیا کہ طالبان قیدیوں کے لیے مذاکرات کیے جائیں ،لیکن امریکہ اور اُس کے اتحادی اور افغان حکومت اس میں دلچسپی نہیں رکھتے“

نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پرمشرقی افغانستان میں افغان طالبان کے ایک سینئر رُکن نے کہا ”اُنہوں نے کبھی اغوا کرنے میں کسی کی مدد نہیں کی چاہے وہ ملکی ہوں یا غیر ملکی۔”طالبان کمانڈر کے مطابق ہمارے (طالبان) افغانستان میں سخت قوانین اور ضابطے ہیں ۔القاعدہ سمیت معمولی سے گروہ بھی طالبان کی اجازت کے بغیر کام نہیں کرسکتے “اُنہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اغوا کے منصوبے کو حتمی شکل دینے سے پہلے رہبری شوریٰ کو مطلع کیا جائے۔جب اُن رپورٹس پر ان سے پوچھا گیا کہ  زیادہ تر دولت مند لوگ بھاری تاوان کے لیے اغوا کیے گئےتوطالبان لیڈر نے وضاحت کی کہ”ویسے تاوان ایک ضمنی فائدہ ہے،لیکن کوئی مقامی کمانڈراس کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔اس کی اجازت صرف سرکاری طور پر ہے“اُس نے دو ٹوک تردید کی کہ طالبان صرف تاوان کے لیے لوگوں کو اغوا کرتے ہیں ۔

یہ طالبان جنگجوﺅں کو ہمیشہ مشتعل کردیتا ،جب اُن کے ساتھی اُن تشدد آمیز کہانیوں سے متعلق اُنہیں بتاتے جب وہ غیر ملکی یا افغان حکام کی حراست میں ہوتے تھے۔طالبان کمانڈر کے مطابق”یہاں کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا کہ دُشمن کے لوگوں کے اغوا کیا جائے اورپھر اُنہیں اپنے طالبان قیدیوں کے بدلے میں چھوڑا جائے“اُس نے کہا کہ ”اُنہوں نے یعنی طالبان نے اپنے جنگجوﺅں کو ہدایت دی کہ وہ اغوا کے لیے غیر ملکیوں بالخصوص عسکری حکام کو ترجیح دیں”اُس کے مطابق”غیر ملکیوں کی صورت آسانی سے قیدیوں کا تبادلہ ممکن بنایا جاسکتا ہے“

بعض طالبان ذرائع کے مطابق ،حال ہی میں امریکی صحافی اور اُن کے ترجمان کو افغانستان کے صوبہ ہلمند کے شہر مارجہ میں اغوا کی کوشش کی گئی ۔لیکن افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کہتے ہیں کہ اغوا شدگان کی ہلاکت کے بعد ،اُن کی شناخت کے بارے اُنہیں معلوم ہوا۔اُس نے دعویٰ کیا کہ امریکی صحافی اور اُن کے افغان ترجمان، طالبان کی اجازت کے بغیر فوجی گاڑیوں میں سفر کررہے تھے ۔

بہ شکریہ ”دی نیوز“ترجمہ :احمد اعجاز

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...