کیا واقعی! مقامی قیادت ہی متحدہ کے فیصلے کرے گی؟

877

ڈاکٹر فاروق ستار فی الحال الطاف حسین کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گے کیونکہ وہ اپنی ذات پر اسٹبلشمنٹ کی مہر ثبت نہیں کرانا چاہتے تاہم وہ اب لندن قیادت کو کراچی کے فیصلوں میں عمل دخل نہیں کرنے دیں گے

گذشتہ سال 11 مارچ کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ، اپنے مرکز نائن زیرو پر مارے گئے رینجرز کے چھاپے کے بعد عتاب کا شکار تھی۔یکم مئی کو رینجرز نے رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینیر ڈاکٹر فاروق ستار کے کوارڈینیٹر آفتاب احمد کو حراست میں لیا۔ دو دن بعد 3 مئی کوآفتاب احمد کو انتہائی تشویشناک حالت میں جناح اسپتال لایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کی۔ آفتاب احمد کے جسم پربہیمانہ تشدد کے نشانات موجود تھے جس کی تصدیق پوسٹ مارٹم رپورٹ سے بھی ہوگئی تھی۔بظاہر تو یہ آفتاب احمد کے اہل خانہ او ر ان کی جماعت کے لئے بری خبر تھی لیکن درحقیقت یہ وہ پہلا موقع تھا جب ایم کیو ایم کو اس موقع پر میڈیا کی بھرپور سپورٹ ملی ۔ہر ٹی وی چینل پر اسی بابت بحث ہورہی تھی جس سے ایم کیو ایم لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ رہی تھی ۔رینجرز حکام بھی اس صورتحال سے پریشان تھے کیونکہ اس ایک واقعے نے رینجرز کو بیک فٹ پر دھکیل دیا تھا ۔ کچھ عرصے بعد حالات معمول پر آگئے اور ایم کیو ایم کے رہنماﺅں کے بقول حالات پہلے جیسے ہی ہوگئے تھے ۔ اس صورتحال سے پریشان متحدہ قومی موومنٹ نے 17 اگست کو کراچی پریس کلب کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کردی ۔ ایم کیو ایم کا دعویٰ تھا کہ یہ قدم بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ،مہاجروں کی نسل کشی ،کارکنوں کے گھروں پر اور دفاتر پر غیر قانونی چھاپوں اور گرفتاریوںاور سیاسی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندیوں کے خلاف اٹھایا تھا۔ایم کیو ایم کی اس سیاسی چال نے ایک دفعہ پھر ماحول کو اس کے حق میں تبدیل کردیا ۔ پر امن احتجاج کو میڈیا کی ایک دفعہ پھر حمایت حاصل ہوگئی ۔ پارٹی کے مختلف رہنما نیوز چینلز کے پرائم ٹائم شوزمیں مدعو کئے جانے لگے ۔پانچ دنوں میں کوئی دن ایسا نہیں گذرا جب ایم کیو ایم کے دو سے تین رہنما مختلف نیوز چینلز کے ٹاک شوز میں 8 بجے سے 12 تک اپنا مو


¿قف پیش کرتے نہ دکھائی دیے ہوں ۔لیکن یکایک 22 اگست کی سہ پہر کو متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کے کیمپ پر بیٹھے افراد سے پاکستان مخا لف خطاب شروع کردیا جس نے ایم کیو ایم کے حق میں بنتی صورتحال کو یکسر تبدیل کردیا ۔اگر کہا جائے کہ ایم کیو ایم کے قائد نے اپنی ہی جماعت پر خود کش حملہ کردیا تو غلط نہ ہوگا ۔

الطاف حسین کی تقریر میں خطرناک باتیں کی گئیں اور کارکنان کو نیوز چینلز پر حملے کی ترغیب بھی دی گئی ۔اس تقریر کے بعد ایم کیو ایم کے کارکنوں نے نہ صرف اے آر وائی اور نیو ٹی وی پر حملہ کردیا بلکہ ایک پولیس موبائل اورموٹر سائیکل کو بھی نذر آتش کردیا ۔اس کے بعد قانون نافذ کرنے ادارے حرکت میں آئے اور 20 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ۔اس مقام پرمظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس نے ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔کراچی کے ریڈ زون اور گورنر ہاﺅس کے قریب واقع فوارہ چوک پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں ایم کیو ایم کا ایک کارکن مارا بھی گیا ۔ 6:30 بجے کے قریب پولیس نے پریس کلب پر لگا ایم کیو ایم کا کیمپ اکھاڑ پھینکا۔ساڑھے نو بجے جس وقت ڈاکٹر فاروق ستار ،سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن کے ہمراہ ساری صورتحال پر بات کرنے پریس کلب کے باہر پہنچے تو رینجرز اہلکاروں نے انہیں میڈیا سے بات کرنے سے نہ صرف روک دیابلکہ دونوں رہنماﺅں کو حراست میں لے کر رینجرز ہیڈ کوارٹر منتقل کردیا ۔

23 اگست کی صبح 8 بجے ڈاکٹر فاروق ستار کو چھوڑ دیا گیا جس کے بعد انہوں نے دوپہر 4:30 بجے کراچی پریس کلب میںپر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا ۔اس دوران انہوں نے الطاف حسین کے گزشتہ بیان کا حوالے دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان مخالف نعرے جذبات میں لگائے جائیں یا ذہنی دباﺅ کے تحت، ان کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔پھر واضح کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان میں رجسٹرڈ ہے، پاکستان میں سیاست کرتی ہے اور پاکستان کے آئین کی پاسدار ہے اس لئے اس کے فیصلے بھی اب پاکستان میں ہوں گے۔ اس پریس کانفرنس میںمتحدہ قومی موومنٹ کے ایک درجن سے زائد ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز فاروق ستار کے ہمراہ تھے ۔

جمعرات کی شب 23 اگست کو ایم کیو ایم کے اہم اور سینئر رہنما نے بھوک ہڑتالی کیمپ کے ساتھ واقع کراچی پریس کلب میں چند صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کررہے تھے ۔ دوران گفتگو جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاک سر زمین پارٹی کے رہنماﺅں مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرکے کیا غلطی کی ؟ایک اہم رہنما نے جواب دیا، انہوں نے علیحدگی اختیار کرکے کوئی غلطی نہیں کی لیکن الطاف حسین کے خلاف بات کرکے نہ صرف اپنے آپ کوبلکہ اپنے مقاصد کو بھی نقصان پہنچا یا۔ مزید کہا کہ مصطفی کمال کو صرف متحدہ کے کرپٹ عسکری ونگ اور لند ن سیکرٹیریٹ سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنانا چاہیے تھامگر انہوں نے سب باتوں کو نظر انداز کرکے صرف الطاف حسین کو نشانہ بنایا ۔متحدہ کے یہ اہم رہنما اب فاروق ستار کیمپ کے اہم ترین رکن ہیں ۔ہر جگہ یہ باز گشت سنائی دی جارہی ہے ڈاکٹر فاروق ستارنے صرف الطاف حسین کے بیان کے ساتھ لاتعلقی ظاہر کی ان کی ذات اب بھی ڈاکٹر صاحب کے لئے قائد کی حیثیت رکھتی ہے ۔

جمعرات کی غیر رسمی گفتگو کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار فی الحال الطاف حسین کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گے کیونکہ وہ اپنی ذات پر اسٹبلشمنٹ کی مہر ثبت نہیں کرانا چاہتے تاہم وہ اب لندن قیادت کو کراچی کے فیصلوں میں عمل دخل نہیں کرنے دیں گے۔یہ بھی اطلاعات ہیں اب لندن اور پاکستان میں دوریاں ہوچکیںاور دونوں ایک پیج پر نہیں ہیں ۔اس بات کی تصدیق ڈاکٹر فارو ق ستار کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ 23 اگست کی پریس کانفرنس کے بارے میں انہوں نے لندن سے کوئی اجازت طلب نہیں کی تھی۔

اس تمام صورتحال سے پاک سر زمین پارٹی کے رہنما مصطفی کمال سب سے زیادہ پریشان دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ سخت جھنجھلائے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ فاروق ستار ڈرامہ کر رہے ہیں ، الطاف حسین ہی فیصلے کریں گے۔مصطفی کمال کی اصل ڈیمانڈ ہی یہی تھی کہ الطاف حسین پر پابندی لگے اور ان کا متحدہ قومی موومنٹ سے سایہ ختم کیا جائے اور انہیں امید تھی کہ جب تک وہ حیات ہیں ایسا ممکن نہیں لیکن فاروق ستار کی حالیہ پریس کانفرنس نے سارے منصوبے پر پانی پھیر دیا ہے۔صورتحال بھی فاروق ستار کے حق میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے پرانے رہنماﺅں نے فاروق ستار سے رابطے شروع کردئے ہیں جن میں اہم نام سلیم شہزاد کا ہے ۔ سلیم شہزاد نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا کہ وہ فاروق ستار کی حمائت کرتے ہیں اور بہت جلد کراچی پہنچ رہے ہیں ۔ 24 اگست کو کراچی میں مئیر کا انتخاب ہوا جس میں وسیم اختر میئر اور ارشد وہرہ ڈپٹی میئر منتخب ہوگئے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ کہ سندھ رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ میں آنے والی اس تقسیم کو باقاعدہ تسلیم کرلیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 24 اگست کی شام پونے 9 بجے رینجرز کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی جس میںدو جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری ظاہر کی گئی حیرت انگیز طور پر ان ملزمان کا تعلق ایم کیوایم (لندن سیکریٹیریٹ )سے ظاہر کیا گیا تھا ۔ اس سے قبل جو پریس ریلیز جاری کی جاتی تھی اس میں ایم کیو ایم (اے) یعنی الطاف لکھا جاتا تھا ۔ اس اہم تبدیلی کو بہت غور سے دیکھا اور محسوس کیا جارہا ہے ۔ انتظار کیجئے پردہ اٹھنے کو ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...