انسدادِدہشت گردی کے لیے برقعہ پر پابندی دانشمندانہ اقدام نہیں

788

تقریباًتمام خواتین قانون نافذ ہونے کے بعد آج فرانس میں نقاب اُوڑھتی ہیں ،وہ خواتین جو قانون نافذ ہونے سے پہلے نقاب اُوڑھتی تھیں ،وہ اب گھر وں میں رہتی ہیں اور کبھی باہر نہیں جاتیں ۔

حالیہ ہفتوں میں دہشت گردی کے خطرات میں تیزی سے اضافہ کے ساتھ،معرو ف جرمن سیاست دانوں کی ایک معقول تعداد نے متنازعہ ردِ عمل دیا ہے: مسلم خواتین کے کسی بھی طرح کے مکمل چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد ہو گی۔”مکمل چہرے کے پردے پر پابندی واجب ہے ،جیسا کہ برقعہ اور نقاب،اور یہ دنیا کے لیے ایک اشارہ ہو جائے گا”جینز سیفن جو کہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی کی اُبھرتی ہوئی شخصیت ہیں ،نے ڈائی ولٹ اخبار کو گذشتہ ماہ خود کو ”برقعہ فوب”بتایا۔ابھی تک جب جرمنی کی وزارتِ داخلہ نے نئے سکیورٹی اقدامات کا گذشتہ دنوں اعلان کیا ،اُس میںاس طر ح کی کوئی پابندی شامل نہیں تھی۔وزیرِ داخلہ تھامس ڈی مائزرے نے رپورٹرز کو بتایا”تم ہر اُس چیز پر پابندی نہیں لگاسکتے ،جو تمہارے خلاف ہو”،اور مَیں برقعہ پہننے کے خلاف ہوں۔

حالیہ سالوں میں پوری دُنیا کے بہت سے ممالک میں مسلم خواتین کے لیے چہرے کو ڈھانپنے اور سکارف لینے پر پابندی عائد کردی گئی ہے…عمومی طورپر یہ برقعے اور نقاب مسلم خواتین کے لیے بہتر انضمام کے لیے رکاوٹ پیدا کرتے ہیں ۔

کچھ محققین کا تاہم یہ خیال ہے کہ برقعے پر پابندی بہت سی خواتین کو تنہائی کا شکار کر دے گی اور حقیقت میں اقلیت جو پہلے ہی دور ہے،مزید دور ہوجائے گی۔کچھ کیسز میں یہ پابندی سکیورٹی مسائل پیدا کرے گی،بجائے اس کے کہ مسائل کا حل نکلے۔

فرانس کے کیس پر غور کریں ،جو یورپی ممالک میں پہلا ملک ہے جس نے برقعے پر پابندی لگائی۔دوہزار گیارہ سے عوامی مقامات پر پورے چہرے کو ڈھانپنا منع ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان خواتین  نقاب یا برقعہ پہنیں گی ،اُنہیں ایک سو پچاس یورو کا جرمانہ ہوسکتا ہے یا پھر شہریت کا کورس لینے کی ضرورت ہوگی۔کوئی شخص جو کسی عورت کو چہرہ ڈھانپنے پر مجبور کرے گا ،اُسے پندرہ ہزار یورو(سولہ ہزار سات سو ڈالر)کا بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جب فرانس نے اس پابندی کا اعلان کیا تھا تو اس کو وسیع پیمانے پر حمایت حاصل تھی:پارلیمنٹ نے اتفاقِ رائے سے قانون سازی کی اور رائے شماری سے معلوم ہوا کہ اسی فیصد سے زائد عوام اس پر رضامند تھی۔ایک ایسے ملک میں جہاں سیکولرازم کو زیادہ پسند کیا جاتا ہو اور مذہب کو ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہو،وہاں اس پابندی کے فوائد پر اب بھی پانچ سال بعد بہت کم بحث ہوتی ہے۔صرف رواں ہفتے فرانس کے شہر کینز میں کچھ مسلم خواتین کے پورا جسم ڈھانپنے والے سوئمنگ سوٹ پر پابندی لگادی گئی ہے۔

دوہزار چودہ میں اس قانون کو بین الاقوامی منظوری ملی،جب انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے پابندی برقرار رکھی اور کہا کہ اس سے شہریوں کوایک ساتھ رہنے کی حوصلہ افزائی ملے گی۔لیکن ایگنس ڈی فیو ، ایک سوشل سائنٹسٹ او ر ڈاکو مینٹری فلم میکر ہیں ،جنہوں نے مسلم خواتین پر فرانسیسی قوانین کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے،کہتی ہیں کہ اس کے کچھ لغو اثرات دیکھے گئے ہیں ۔ڈی فیو کہتی ہیں کہ دوہزار نو کے بعد ایسی ایک سو پچا س خواتین جو نقاب اُوڑھتی تھیں ،کے انٹرویو کیے کہ کیسے قانون نے فرانسیسی معاشرے کے بارے ان کے نقطہ نظر کو تبدیل کیا۔وہ کہتی ہیں ”تقریباًتمام خواتین قانون نافذ ہونے کے بعد آج فرانس میں نقاب اُوڑھتی ہیں ””وہ خواتین جو قانون نافذ ہونے سے پہلے نقاب اُوڑھتی تھیں ،وہ اب گھر وں میں رہتی ہیں اور کبھی بھی باہر نہیں جاتیں ”۔

اس سے پہلے کہ پابندی کا اثر ہوتا،فرانس کے وزیرِ داخلہ نے تسلیم کیا کہ دوہزار سے کم خواتین ملک بھر میں نقاب لیتی تھیں …جو کہ مسلم آبادی پچاس لاکھ ہے ،کا چھوٹا سا حصہ بنتا تھا…تقریباًکوئی بھی برقعہ نہیں پہنتی تھی،زیادہ تر کپڑے کے ایک ٹکڑے سے منہ چھپا لیا کرتی تھیں ۔کچھ کا خیال ہے کہ یہ اندازہ ناقص تھا ،تاہم اور شاید اصل میں اس سے بھی کم تعداد میں تھیں ۔

دوہزار پندرہ میں وزراتِ داخلہ نے اعدادو شمار شائع کیے جو یہ بتاتے ہیں کہ پندرہ سو چھیالیس جرمانے اس قانون کے تحت عائد کیے گئے ،اگرچہ ایک ہی پر باربار جرمانہ عائد ہوا۔ایک خاتون تینتیس مرتبہ جرمانہ اداکر چکی تھی۔فرانسیسی حکام نے یہ تسلیم کیا کہ پابندی ہمیشہ کے لیے عائد نہ کی جاتی لیکن اس سے متعلق تشدد کے بہت سے واقعات براہِ راست اور بلاواسطہ جنم لے رہے تھے۔دوہزار تیرہ میں فرانس کے مضافاتی علاقے میں پولیس کے ایک عورت کو نقاب اُتارنے کا کہنے کے بعد تین دن کے لیے فسادات پھوٹ پڑے۔ٹائم کی رپورٹ کے مطابق اُس عورت کے خاوند کو مبینہ طور پر پولیس آفیسر کا گلا گھونٹے کی کوشش پر گرفتار کیاگیا۔

عین اُسی وقت پر بہت سی نقاب پہنے مسلم خواتین پر مبینہ نفرت کی وجہ سے سالوں سے حملے کیے جارہے ہیں ۔دوہزار تیرہ میں ایک مسلم خاتون دو اشخاص کے حملہ کرنے کے بعد اسقاطِ حمل کا شکار ہوئی ۔کسی بھی ایسے شخص کے خلاف کوئی کیس مشتہر نہیں کیا گیا ،جس نے کسی عورت کو پورے چہرے پر نقاب لینے پر مجبور کیا ہو۔ڈی فیو کی تحقیق کے مطابق ،اُسے ایسا ثبوت نہیں ملا کہ بڑے پیمانے پر یہ پریکٹس کی جاتی ہو۔اُس نے کہا کہ”میں کسی بھی ایسی عورت سے نہیں ملی ،جس کو نقاب لینے پر مجبور کیا گیا ہو”اس کے برعکس مسلم خواتین جو پابندی کے باوجود نقاب پہنتی ہیں ،وہ اب فرانسیسی حکومت سے ذاتی بغاوت کے طورپر ایسا کرتی ہیں ۔

اُس نے نوجوان غیر شادی شدہ اور طلاق یافتہ نومسلم خواتین کے انٹرویو کیے۔ایک نوجوان نو مسلم جس کا نام ایملی کونیگ تھا ،آخر کارداعش میں شمولیت کے لیے شام چلی گئی ۔امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے دوہزار پندرہ میں کہا کہ ویڈیو ز سے معلوم پڑتا ہے کہ ایملی کونیگ شام میں ہتھیاروں کے ساتھ ٹریننگ کر رہی تھی اور فرانس میں لوگوں کو فرانسیسی اداروں پر حملہ کرنے کی ہدایات دیتی تھی۔ڈی فیو کا کہنا ہے کہ اُسے شک ہے کہ صرف وہ ایک تھی جس نے شام کا سفر کیا۔دوسری خواتین ،جن سے اُس نے بات کی ،وہ بھی بنیاد پرست بن چکی تھیں ۔ڈی فیو کہتی ہے ”فرانس کی طرف سے پابندی کی وجہ سے وہ ایسی بن چکی تھیں ”

ہیرورو انگرام جو کہ آسٹریلین یونی ورسٹی میں ریسرچ فیلو ہیں ،اُس نے انتہاپسند لٹریچر پر تحقیق کی اور یہ بات نوٹ کی کہ انتہا پسند گروپ خاص طور پر فرانس کی نقاب پر پابندی کو انتہا پسند جماعتوں میں بھرتی کے لیے آلے کے طور پر استعمال کیا۔انگرام کہتا ہے کہ ” فرانس کی پورے چہرے کو ڈھانپنے کی پابندی نے براہِ راست تھوڑے سے مسلم فرانسیسیوں پر اثر کیا ،جبکہ بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا چرچا ہوا”دوہزار تیرہ ،چودہ میں ایک مطالعہ کا اہتمام کیا گیا جس میں معلوم ہوا کہ مسلم اُمیدوار وں کے ساتھ فرانس میں ملازمتوں کی مَد میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔

شاید جرمنی میں بھی یہ معاملہ ہو۔جبکہ اعدادو شمار یہ بتاتے ہیں کہ جرمنی میں بھی پورے نقاب پر پابندی کو سپورٹ کیا جاتا ہے۔بعض جرمن صحافیوں کا کہنا ہے کہ ملک میں شاید کچھ سو خواتین ایسی ہوں گی جو نقاب پہنتی ہیں اور اُس سے بھی کم تعداد ایسی خواتین کی ہے جو برقعہ پہنتی ہیں ۔شاید برقعہ پر پابندی کا سب سے بڑا مسئلہ ،پابندی کے لیے برقعے کی تلاش ہوگی۔

ایڈم ٹیلر،ترجمہ و تلخیص :شازی احمد،بہ شکریہ واشنگٹن پوسٹ

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...