ایک نئے دور کا آغاز :جو ابھی تک ایک خواب ہے !

796

کچھ مایوسیوں کے باوجود یہ بات سب نے مانی کہ سارک کانفرنس کے موقع پر بینظیر بھٹو کی کوششوں سے پاکستان اور بھارت میں تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوا ۔

28 برس ہو گئے تھے کسی بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کا دور ہ نہیں کیا تھا۔کیونکہ جنوبی ایشیائی ہمسایوں میں ہمیشہ جنگ کی کیفیت رہتی ہے ۔مگر 29 دسمبر 1988 کو  صورتحال تبدیل ہو گئی جب بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اسلام اباد میں قدم رکھے تاکہ پاک بھارت دو طرفہ تعلقات میں ایک نئے پر امن دور کی بنیاد رکھی جا سکے ۔

گاندھی اسلام آباد میں 29 دسمبر کی صبح پہنچے جہاں انھوں نے سارک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنی تھی جو 29 سے 31 دسمبر کو اسلام آباد  میں ہو رہا تھا ۔لیکن پس پردہ دونوں ممالک کی حکومتوں نے کافی کو ششیں کی تھیں کہ یہ دورہ ممکن ہو سکے ۔

مگر بینظیر بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالے ابھی چار ہفتے ہی ہوئے تھے اور ان کے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ وہ خطے کے رہنماؤں کی میزبانی کر کے ان کے ساتھ دو طرفہ تعاون کی راہیں تلاش کریں ۔ جب انھوں نے وزارت عظمی ٰ کا منصب سنبھالا تھا تو راجیو گاندھی نے ان کو تہنیتی پیغام ارسال کیا تھااور امن اور خوشحالی کے قیام کے لئے دو طرفہ کوششوں کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔درحقیقت اس سے قبل جس بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کا دورہ کیا تھاوہ راجیو گاندھی کا دادا پنڈت جوہر لال نہرو تھا جس نے 1960 میں اس وقت پاکستان کا دورہ کیا تھا جب دونوں ممالک کے درمیان تاریخی سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہونے تھے ۔ اس معاہدے سے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی درجہ حرارت میں کمی ہوئی تھی اور اب راجیو کے دورے سے بھی سفارتی حلقے ا س امید کا ظہار کر رہے تھے کہ اس دورے سے دو طرفہ تعلقات میں موجود برف پگھلے گی ۔سارک کانفرنس ایک ایسا موقع تھا جس کو دونوں رہنما کسی صورت ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے ۔اس موقع پر سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر سیکورٹی کے بھر پور انتظامات کئے گئے تھے ۔

سارک کانفرنس  سے پانچ روز قبل راجیو گاندھی کا خصوصی ایلچی اسلام آباد آیا تھا تاکہ بھارتی وزیر اعظم کی سیکورٹی کے انتظامات کا جائزہ لے سکے ۔ اس نے وزیراعظم سے بھی ملاقات کی تھی تاکہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کے ایجنڈے پر غور کیا جائے ۔ اس نے راجیو گاندھی کی جانب سے بینظیر بھٹو کو دورہ بھارت کی دعوت بھی دی تھی ۔ انھوں نے دعوت قبول کر لی تھی تاہم کہا تھا کہ اس کا اعلان راجیو سے ملاقات کے بعد کیا جائے گا ۔29 دسمبر کی صبح بھارتی وزیر اعظم اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچ گئے ۔ان کے وفد میں ان کی بیوی سونیا ، بیٹا راہول گاندھی اور بیٹی پریانیکا گاندھی بھی شامل تھیں ۔ ائیر پورٹ پر ان کے استقبال کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے جہاں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان ، وزیر اعظم بینظیر بھٹو ، سیاسی رہنما ، اور اعلی ٰ فوجی اور سول افسران بھی موجود تھے ۔

اپنی آمد کے دو گھنٹوں بعد ہی دونوں وزیر اعظم سر جوڑ کر بیٹھ گئے ۔ اس ملاقات کا خوشگوار تاثر قائم ہوا جس سے دونوں اطراف کے وفود کے درمیان بھی اعتماد بحال ہوا ۔ اسی شام کو وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے راجیو اور ان کے خاندان کے لئے وزیر اعظم ہاؤس میں شاندار عشائیہ دیا ۔جس میں آصف زرداری اور بینظیر کی والدہ بیگم نصرت بھٹو بھی موجود تھیں ۔اس عشائیہ نے بھی دو طرف برف پگھلانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس موقع پر بینظیر نے کہا کہ “وقت آگیا ہے کہ ہماری کوششوں کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت میں ایک نئی صبح طلوع ہو “۔اس  گفتگو سے بھارتی مزاکراتی وفد کو حوصلہ ملا ۔

سارک کے اجلاس میں جس میں بھارت ، سری لنکا ، بنگلہ دیش ، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ کے رہنما شامل تھے ان کے درمیان متفقہ امور پر بات چیت ہوئی ۔تمام رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس طرح کی ملاقاتیں جاری رہنی چاہئیں تاکہ وہ امور جن پر اتفاق ہو جائے ان پر عمل در آمد کی راہ ہموار ہو ۔

تاہم کچھ تقریروں سے بینظیر بھٹو کو الجھن ہوئی ۔مثال کے طور پر بنگلہ دیش کے جنرل ارشاد اور سری لنکا کے صدر جے وردھنا نے جنرل ضیاء کو خراج ِ تحسین پیش کیا اور ان کی وفات پر تعزیت کا ظہار کیا ۔ جنرل ارشاد نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ جنرل ضیاء سارک کے بانی تھے ۔ بینظیر بھٹو کے لئے بطور میزبان یہ آسان نہیں تھا کہ وہ یہاں بیٹھ کر ایک ایسے شخص کی تعریف سنے جس نے اس کے باپ کو پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ جب وہ خطاب کے لئے کھڑی ہوئیں تو انھوں نے جنرل ضیاء پر دیئے گئے ریمارکس کو نظر انداز کرتے ہوئے شیخ مجیب الر حمٰن اور سری لنکا کے رہنما بندرا نائیکے کو خراج ِ تحسین پیش کیا  ۔اس طرح پہلا دن خوش اسلوبی سے بیت گیا ۔

کانفرنس کے دوسرے روز جب معمول کے مطابق کام شروع ہوا تو بینظیر اور راجیو علیحدگی میں ملے جس میں بعد ازاں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ بھی شامل ہو گئے ۔ دو گھنٹے کے ان مزاکرات میں کشمیر سمیت کئی مسائل زیر بحث آئے ۔ راجیو نے کشمیر پر بھارت کے روایتی مؤقف کو نہیں دہرایابلکہ انھوں نے کہا کہ وہ کھلے دل سے اس پر غور کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ لیکن جیسے مزکرات آگے بڑھے انھوں نے کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی حمایت بھی نہیں کی ۔ راجیو نے کہا کہ کشمیر پر بات کرنا مردہ گھوڑے میں جان ڈالنا ہے ۔

کئی دوسرے معاہدوں کے ساتھ دونوں رہنما اس بات پر متفق ہو گئے کہ وہ ایٹمی حملہ میں پہل نہیں کریں گے ۔ کوینکہ دونوںممالک ایک دوسرے کے ایٹمی پرگراموں کے حوالے سے شد ید عدم تحفظ کا شکار تھے ۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کسی بھی غیر ملکی طاقت کو ایک دوسرے کے ایٹمی مراکز پر حملے کے لئے سہولت فراہم نہیں کریں گے ۔

31 دسمبر کو سارک سربراہ کانفرنس کے آخری روز دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ون ٹو ون ملاقات ہوئی ۔ اس کے بعد انھوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا ۔ جس میں انھوں نے کہا کہ دو مسائل ملاقات میں زیر بحث نہیں ایک بھارت کی سیاچن سے بے دخلی اور دوسرا پاکستان کی جانب سے خالصتان تحریک کی مبینہ حمایت ۔

کچھ مایوسیوں کے باوجود یہ بات سب نے مانی کہ سارک کانفرنس کے موقع پر بینظیر بھٹو کی کوششوں سے پاکستان اور بھارت میں تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوا ۔اس واقعہ کو 28 سال گزر چکے ہیں ہم ابھی تک اس نئے دور کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔

( شیخ عزیز: ترجمہ ، سجاد اظہر۔بشکریہ ڈان )

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...