تنازعات سے پاک دُنیا کے دس ممالک

970

دُنیا میں بہت ہی کم ممالک ایسے ہیں جنہیں سچ مچ پُراَمن متصور کیا جائے ،دوسرے لفظوں میں وہ اندرونی یا بیرونی کسی طرح کے تنازعات کا شکار نہ ہوں ۔

دسویں سالانہ گلوبل پیس انڈیکس کے مصنفین کے مطابق ”دُنیا ایک خطر ناک جگہ بنتی جارہی ہے مگر یہاں دس ممالک ایسے بھی ہیں جنہیں مکمل طو رپر تنازعات سے پاک سمجھا جاسکتا ہے

مشرقِ وسطیٰ میں بگڑتے تنازعات،پناہ گزینوں کے بحران پر قابو نہ پایا جانااور دہشت گردی کے بڑے واقعات میںزیادہ اموات ،ان سب نے دُنیا کو دوہزار پندرہ کی نسبت دوہزار سولہ میں کم امن بنادیا۔دُنیا میں بہت ہی کم ممالک ایسے ہیں جنہیں سچ مچ پُراَمن متصور کیا جاسکتا ہے…دوسرے لفظوں میں وہ اندرونی یا بیرونی کسی طرح کے تنازعات کا شکار نہیں ہیں ۔انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس ایک تھنک ٹینک جس نے گذشتہ دس سال کا انڈیکس تیار کیا ہے ، کے مطابق ،بوٹسوانا،چلی،کوسٹا ریکا،جاپان،موریشس،پانامہ،قطر،سوئٹزلینڈ،یوراگوئے اور ویت نام ایسے ممالک ہیں ،جو کسی بھی طرح کے تنازعات سے پاک ہیں ۔آئی ای پی کے بانی سٹیو نے دی انڈیپینڈنٹ کو بتایا کہ پُراَمن ممالک کی فہرست سے برازیل کو نکال دیا گیا،جو ریو اولمپک میں ہر سال بری پرفارمنس پیش کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔اُس کے مطابق مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال نے کسی حد تک باقی دُنیا کے اَمن میں کمی لائی ،یہی اس سال پیس انڈیکس کا قابلِ ذکر نتیجہ ہے۔

اگر ہم دُنیا کو مجموعی طور پر دیکھیں تو یہ گذشتہ بارہ ماہ میں قدرے کم پُراَمن رہی ہے ”ایساسٹیو کلیلے کا کہنا ہے۔”لیکن اگر ہم گذشتہ دہائی میں سے اس پیس انڈیکس سے مشرقِ وسطیٰ کو نکال دیں تو دُنیا زیادہ پُراَمن رہی ہے۔اس سے معلوم پڑتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا دُنیا پر کتنا اثر ہے۔

انڈیکس سے ظاہر کرتا ہے کہ اکیاسی ممالک ایک سال میں زیادہ پُراَمن بن گئے،جب کہ اُناسی کی صورتِ حال دگرگوں ہے ۔تاہم گذشتہ سال کے برعکس،ایک واضح رجحان جہاں زیادہ پُراَمن ممالک میں مزید بہتری آئی،جبکہ کم پُراَمن ممالک میں ابتری آئی …زیادہ سے زیادہ یہ کہا جائے کہ یہ دنیا بھر میں غیر منصفانہ اَمن کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ مسٹر سٹیو کلیلے کہتے ہیں کہ ”اس کے پیچھے بنیادی وجہ ہماری وہ ناکامی ہے جو اُبھرتے ہوئے تنازعات کو حل نہیں کرپاتی”افغانستان اور عراق میں تنازعات ایک دہائی پر محیط ہیں ،پھر دوہزار گیارہ میں تنازعات شام میں داخل ہوئے اور پھر اُس کے بعد لیبیا اور یمن میں۔اُبھرتے تنازعات کو حل نہ کرسکنے کی ہماری ناکامی اور نااہلیت ہی ان مسائل کی بنیادی وجہ ہے ۔

اگر ہم میدان جنگ میں ہونے والی اموات کو لیں تو یہ بیس سالوں میں ایک لاکھ بارہ ہزا ر سے زائد ہیں۔اگر ہم شام ایران اور افغانستان کو نکال دیں تو یہ تعداد پچھتر فیصد کم ہو جائے گی

انڈیکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام گذشتہ بارہ میں اُنتالیس ممالک میں بدترین ہے ،تحقیق میں شامل ہے کہ یہ ایک سو تریسٹھ ممالک میں سے ایک سو پانچ ممالک میںپانچ درجے گر گیا ہے،اس کی وجہ جیلوں میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے نیز حکومت کی طرف سے حفاظت کے سکیورٹی آفیسرز کی تعیناتی اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں قدرے اضافہ ہے۔ مسٹر سٹیو کلیلے کہتے ہیں کہ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کیسے اولمپک گیمز کی شرائط سے باہر کھیلیں گے ۔یہ یقینا بہت غیر پائیدار صورتِ حال ہے ”

آئس لینڈ ایک بار پھر دُنیا کا پُراَمن ملک قرار دیا گیا،ڈنمارک ،آسٹریا،نیوزی لینڈ اور پرتگال اس کے بعد ہیں۔جب کہ شام ایک بار پھر دُنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا۔

جب یہ پوچھا گیا کہ باقی دُنیا آئس لینڈ سے کیسے سیکھ سکتے ہیں ؟تو مسٹر سٹیو کلیلے نے کہا”یہ صرف آئس لینڈ نہیں ہے ،یہ بہت سے ممالک ہیں جن سے ہم سیکھ سکتے ہیں ۔ جسے ہم مثبت اَمن کہتے ہیں وہ اُس کو وجود میں لارہے ہیں ۔ یہ وہ عوامل ہیں جو پُراَمن معاشروں کی تخلیق اور اُن کے استحکام کو برقرار رکھ رہے ہیں

آئی ای پی عددی لحاظ سے اَمن کی وضاحتمثبت انداز سے  کرنے کی مساعی کرتا ہے۔ان عوامل کو نمبر دیتے ہوئے’دوسروں کے حقوق کو تسلیم کرنا ”کرپشن کی کم ترین شرح”معلومات کا آزادانہ بہائو’اور ایک ‘فعال حکومت’۔

اگر مثبت اَمن کافی مضبوط ہے ،پھر ایک ملک کو جھٹکے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ،تو اَمن میں بگاڑ پیدا نہیں ہوگا۔(اگر تشدد کی طرف سے اس کی پیمائش کی جائے)”ایسا سٹیو کلیلے کاماننا ہے ۔

آخرِ کار انڈیکس اس کی نشاندہی کرتا ہے کہ یورپ دُنیا کا ایک ایسا خطہ ہے جو سب سے زیادہ پُراَمن ہے ،اور کچھ مارجن سے دس ممالک کی فہرست میں سات ممالک ایسے ہیں جویورپ میں ہیں ۔اس کے باوجود براعظم یورپ جنگ سے محفوظ نہیں ہے …برطانیہ ،فرنس ،بلجیم اور دوسرے یورپی ممالک مشرقِ وسطیٰ کے بیرونی تنازعات میں بری طرح ملوث ہیں او ریہی وجہ ہے کہ اُنہیں اندرونی طور پر دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے ۔دوسری طرف تمام انتباہ کے یورپ کے تحفظ کے بارے میں ،اگر برطانیہ یورپی یونین کو چھوڑ دیتا ہے تو کیا برطانیہ کے ایگزٹ کے موقع پرآئی ای پی خطے کی قسمت میں تبدیلی کی پیش گوئی کرتا ہے؟ ۔

مسٹر سٹیو کلیلے کہتے ہیں کہ ”بدقسمتی سے مختصر مدت میں اس کو پُر اثر بنانے کا امکان نہیں ،لیکن باقی یورپ کے مقابلے میں برطانیہ کے لیے اس کے طویل المدتی اثرات ونتائج زیادہ ہیں،لیکن اس کا انحصار اس امر پر ہوگا کہ برطانیہ کے اخراج سے ،اقتصادی نتائج کیا نکلیں گے ،اگر معیشت مضبوط رہی تو برطانیہ شاید امن کی موجود ہ سطح کو برقرار رکھ پائے گا۔تاہم اگر اَمن میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو اس کے واپس آنے پر اور اَمن پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ”

بشکریہ انڈیپنڈنٹ،ترجمہ:شازی احمد

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...