پاکستان پر چین کے ابھرتے نقوش

1,113

تاہم پاکستان کی معیشت میں چین کی بڑھتی ہوئی فعال شراکت سے افرادی قوت کو کھپانے کے ابھرتے قومی امکانات دیکھے جار ہے۔

کارکردگی خود کو منواتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں شامل توانائی، انفراسٹرکچر اور گوادر سمیت دیگر صنعتی منصوبوں پر کام کے آغاز نے ناقدین کی بازگشت کو دبا دیا ہے اور معاشرے پر اپنی افادیت ظاہر کرنا شروع کردی ہے۔جیسا کہ پاکستان میں افرادی قوت کو درپیش مانع زبان مسائل اور مہارت سازی میں فرق جیسی مشکلات کا سدباب کرنے کے لیے منظم میگا سماجی اقتصادی منصوبے کا فقدان چلا آرہا ہے۔ تاہم پاکستان کی معیشت میں چین کی بڑھتی ہوئی فعال شراکت سے افرادی قوت کو کھپانے کے ابھرتے قومی امکانات دیکھے جار ہے ہیں۔ اس ضمن میں سرکاری اور نجی ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں چند اہم نکات لائقِ توجہ ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ اس وقت پاکستان میں تقریباً آٹھ سے دس ہزار چینی ماہرین پاک چین اقتصادی راہداری سے منسلک متفرق منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ ملک بھر میں چینی شہریوں کی آمدورفت اور سفروحضر بڑھنے سے کئی ہوٹلوں، موٹلوں اور قیام گاہوں نے اپنے عملہ میں چینی زبان جاننے والے میزبان افسران کو بھرتی کیا ہے تاکہ چینی شہری گاہک مہمانوں کی میزبانی کا بندوبست موجود ہو اور اکثر میں چینی مہمانوں کے ذوقِ طعام کو ملحوطِ خاظر رکھتے ہوئے چینی کھانوں کو بھی اپنے مینیو میں شامل کرلیا ہے۔اگرچہ ہوٹل حکام نے اندراجات کا ریکارڈ نہیں دیکھایا البتہ زبانی طور پر تصدیق کی ہے کہ 2013ءسے چینی مہمانوں کی جانب سے ہوٹلوں میں کمرے لینے کا تناسب تبدیل ہوتا آرہا ہے۔ کراچی میں واقع ایک فائیو سٹار ہوٹل کے سینئر ہوٹل مینیجر نے ڈان کو بتایا کہ معقول میزانیہ کے مطابق تقریباً 25 سے 30 فیصد کمروں میں چینی مہمان طویل عرصے کے لیئے مقیم ہوتے ہیں۔

حال ہی میں بیجینگ سے عہدہ برآ ئی کے بعد پاکستان واپس آنے والے سفارتکار کے مطابق مستقبل قریب میں پاکستان اور چین کے مابین عوامی سطح پر دوطرفہ سماجی تعلقات کا فروغ ناگزیر ہے جس کے لیئے دونوں ممالک کی سرکاری اور نجی جامعات کے اساتذہ اور طلبہ کا دوطرفہ تبادلہ ضروری ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تقریباً 8 سے 10ہزار پاکستانی حال ہی میں چینی جامعات میں زیرِ تعلیم ہیں اور چینی جامعات سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو پاکستان میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں کی جانب سے اپنے عملہ میں بھرتی کیا جارہا ہے اوراب یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ اسلام آباد میں کئی نجی سکولوں نے چائنیز کو دوسری زبان کے طور پر اپنے نصاب میں متعارف کروایا ہے۔

سی پیک کے پراجیکٹ ڈائیریکٹر اینڈ کوارڈینیٹرڈاکٹر ظاہر شاہ نے پاک چائنہ اکنامک کوریڈور سیکرٹریٹ میں بتایا کہ وزارتِ منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات نے تسلیم کیا ہے کہ اگرچہ اب تک مطلوبہ تمام اقدامات نہیں اُٹھائے گئے لیکن کئی ورکنگ گروپ سی پیک کے متنوع پہلوﺅں پر معاملات طے کرنے کے لیئے باقاعدگی سے متعلقہ امور نمٹارہے ہیں۔اسلام آباد سے بذریعہ فون ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں ماحول کو سازگار بنانے کے انتہائی غیرمعمولی کثیرالجہت حکومتی ہدف کا ذکر کیا۔ ”ہم چینیوں میں باد رفتار کام کے رجحان کو دیکھ کر دنگ رہ گئے ہیں۔ جبکہ پاکستانی اب تک پاکستان کا چین کے ایک پٹی ایک شاہراہ کے تصور کو قبول کرنے کے عمل میں اٹکے ہوئے ہیں۔ توقع ہے کہ ہم قلیل مدت میں دس لاکھ روزگار کے موقع پیدا کرپائیں گے۔ البتہ موجودہ ابتدائی مرحلے میں منصوبے کے طویل مدتی ثمرات کا اندازہ لگانا قبل از وقت ہونے کی وجہ سے ذرا مشکل ہے“۔ یہ بات انہوں نے ذرا جلدی میں کہی کیونکہ انہوں نے گلگت میں سی پیک پر منعقدہ ایک سیمینار کی سربراہی کی تھی۔ انہوں نے استعداد سے متعلقہ مسائل درپیش ہونے کا اعتراف بھی کیا اور مزید بتایا کہ پاکستان کی 50 یونیورسٹیاں چینی اداروں کے ساتھ تبادلہ پروگراموں کا اہتمام کررہی ہیں۔ اسلام آباد میں واقع چینی سفارت خانے میں چینی حکام رابطے میں رہتے ہیں اورپاکستان کی جانب سے تعاون اور معاونت ملنے پر تعریف کرتے ہیں علاوہ ازیں متفرق منصوبوں پر جاری پیشرفت کے بارے میں مطمئن اور پرامید ہیں البتہ آن ریکارڈ بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ اُن ویب سائیٹس کی فہرست بتاتے ہیں جہاں چینی میڈیا کے لیے معلومات پیش کرنے پر رضامند ہوتا ہے۔

اسی طرح کی ایک ویب سائٹ میں ایک فوٹوگیلری ہے جس میں جامع طور پر سی پیک سے متعلقہ سینکڑوں مواقع، منصوبوں، (حکام کے)بیانات اور رپورٹوں پر مبنی دونوں ممالک کا دوطرقہ اور باہمی مواد پیش کیا گیا ہے۔ اسی ویب سائٹ میں 8لاجسٹک انفراسٹرکچر منصوبوں، توانائی کے 22 منصوبوں، گوادر شہر کے 10 منصوبوں اور 6 صنعتی منصوبوں پر وقتاً فوقتاً تازہ ترین صورتحال سے اپڈیٹ ہوتی رہنے والی پراگس رپورٹ بھی پیش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں معائنہ اور نگرانی کی ایک رپورٹ کے مطابق منصوبوں پر تقریباً 30 فیصد کام مکمل کردیا گیا ہے۔ توانائی کے شعبہ میں 50 میگاواٹ کا داﺅد ونڈفارم تقریباً مکمل ہونے کو ہے۔ جبکہ کوئلے سے چلنے والا660 میگاواٹ کا پورٹ قاسم پاور پلانٹ، ایک اور کوئلے سے چلنے والا660 میگاواٹ کا ساہیوال پاور پلانٹ، کوئلے سے چلنے والا330 میگاواٹ کا اینگروتھر پاور پلانٹ، تھرکول فیلڈ کے بلاک 11 میں سرفیس مائن، بہاولپور میں 900 میگاواٹ کا قائداعظم سولر پارک شمسی توانائی کا منصوبہ، جھمسیر میں 100 میگاواٹ کا ونڈفارم، 50 میگاواٹ کا سچل ونڈفارم، 720 میگاواٹ کا کیروٹ پن بجلی کا منصوبہ اور 60 فیصد تعمیر شدہ سوکی کیناری پن بجلی کا منصوبہ جیسے مذکورہ بالا 8 میگا منصوبے زیرتعمیر ہیں۔ ذرائع نقل و حمل کے دو بڑے منصوبے جن میں پہلا قراقرم ہائی وے کاحویلیاں تا تھاکوٹ 120 کلومیٹر طویل فیز 11 منصوبہ اور کراچی تا لاہور موٹروے کا 392 کلومیٹر طویل سکھرتا ملتان سیکشن منصوبہ تقریباً 60 فیصد مکمل ہوچکے ہیں۔ اسی دوران جائنٹ فزیبلٹی سٹڈی فار دی اپ گریڈیشن آف ML1 پر 40 فیصد کام مکمل ہوگیا ہے اور ہویلیاں ڈرائے پورٹ کی تعمیر بھی مکمل ہوچکی ہے۔ جلد ہی مزید 15 فیصد زیرِتعمیر منصوبے بھی مکمل ہوجائیں گے۔ گوادرشہر میں پرائمری سکول تیار ہوچکا ہے۔ گوادر کو مہران کوسٹل ہائی وے سے ملانے والی 19کلومیٹر طویل گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے اور گوادر نیوانٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کا 40 فیصد کام مکمل ہوگیا ہے۔ گوادر فری زون بھی تقریباً 50 فیصد تعمیر ہوگیا ہے اور باقی تعمیر ابتدائی مراحل میں ہے۔ لاہور میں اورنج لائن میٹروٹرین 60 فیصد مکمل ہوگئی ہے۔ راوالپنڈی اور خنجراب کے درمیان آپٹیک فائبر کیبل کی بجھائی کا کام 50 فیصد مکمل ہوگیا ہے۔گودار تا نواب شاہ ایل این جی گیس پائپ لائن اور ٹرمینل کی بچھائی کا کام بھی40 فیصد مکمل ہوگیا ہے۔

ترقی کے بادرفتار عمل نے نوازلیگی حکومت کے راہنماﺅں کو پرجوش کردیا ہے اور اُن کی توجہ پاکستان میں سی پیک کی چھتری تلے چینی سرمایہ کاری سے کمائی جانے والی سیاسی سرمایہ کارانہ استفادے پر لگا دیا ہے۔ آغاذ میں نجی شعبہ تذبذب کا مظاہرہ کررہا تھا مگر اب وہ بھی اس گریٹ میں شریک ہوگیا ہے۔ البتہ فی الحال پاکستانی عمومی طور مشرق کی جانب جھکاﺅ کا ادراک کرنے اور مہربانی کے حوالے سے نیک نام دوست چین کے بڑھتے سٹیک تلے ابھرنے والے معاشی مواقع سے استفادہ کرنے کے عمل کو سمجھنے میں لگی ہوئی ہے۔

بشکریہ ڈان۔ترجمہ :شازی احمد

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...