ڈیرہ اسماعیل خان ،جہاں سے پیپلز پارٹی کا ڈیرہ اُکھڑ رہا ہے

907

2013 ءکے الیکشن میں جے یو آئی نے قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں جیت کر ڈیرہ ڈویژن سے پی پی پی کا صفایا کر دیا۔مولانا نے این اے 25 کی نشست چھوڑ کے ضمنی الیکشن میں اپنے بیٹے اسد محمود کو امیدوار بنایا تو فیصل کنڈی نے مقابلہ کرنے کی بجائے پی ٹی آئی کے امیدوار اسی داور کنڈی کی حمایت کر کے اپنی غلطیوں پہ مہر تصدیق ثبت کر دی.

دنیا اب بھول چکی ہو گی کہ پیپلزپارٹی کے قیام کے فوری بعد ذولفقارعلی بھٹو کی تحریک کو عروج ڈیرہ اسماعیل خان سے ملا،مسٹر بھٹو دسمبر 1968ءمیں جب پہلی بار ڈی آئی خان آ رہے تھے تو ان کا استقبال کرنے والوں کی تعداد بہت محدود تھی لیکن اس وقت کی ضلعی انتظامیہ نے چاروں بڑے گراونڈز میں پانی چھوڑ کے شہر والوں پر بھٹو کی سیاسی قوت کی دھاک بیٹھا دی،ذولفقار علی بھٹو نے توپانوالہ بازار کی شہانی منزل کے جھرکے میں کھڑے ہو کر خطاب کیا تو اس کے سامنے ڈیڑھ دو سو سے زیادہ سامعین نہیں ہوں گے لیکن پولیس نے مختصر سے مجمع پہ بلا اشتعال آنسو گیس کی شلنگ کر کے اسے عالمی سطح کی خبر بنا دیا،اسی شام بی بی سی ریڈیو کی اردو سروس نے رزمیہ داستانوں کے انداز میں جب اس واقعہ کا احوال پیش کیا تو ڈیرہ اسماعیل خان کے شہری مسرور اور مسٹر بھٹو مقبول ہو گئے،شاید یہی وجہ تھی جو 1970ءکے عام انتخابات میں ذولفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی کے جن پانچ حلقوں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ان میں ڈی آئی خان کا اکلوتا حلقہ بھی شامل تھا۔بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں ڈیرہ والوں کو گومل یونیورسٹی جیسا تعلیمی ادارہ دے کر اس پسماندہ ترین خطہ کی تقدیر بدل ڈالی،انہوں نے سی آر بی سی کینال اور دریاخان پل کا سنگ بنیاد بھی رکھا لیکن تقدیر نے انہیں ان منصوبوں کو پایا تکمیل تک پہنچانے کی مہلت نہ دی۔اسی دن کے بعد سے پیپلز پارٹی اس شہر کی فعال سیاسی قوت اور مقتدر جماعت چلی آ رہی ہے،اسی حلقہ سے پی پی پی نے کھمبوں کو ٹکٹ دیکر کامیاب کرایا لیکن اس گداز عوامی پارٹی پہ کنڈی خاندان کی بالادستی نے اسے چند سالوں میں مضمحل کر ڈالا۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پی پی پی کی قیادت نے لمبے عرصہ بعد ملک بھر میں تنظیم سازی کر کے پارٹی کو فعال بنانے کی کوشش کی تو ڈیرہ اسماعیل خان کی حد تک تنظیم میں ایسا ارتعاش پیدا ہوا جس نے صوبائی قیادت کو پریشان کر دیا،کچھ کارکن تو فیصل کنڈی کے صوبائی جنرل سیکرٹری نامزد ہونے پر پہلے ہی سیخ پا تھے لیکن ضلعی تنظیموں کے اعلان کے بعد سابق ایم پی اے مظہر جمیل علیزئی کی ایما پہ پرانے کارکنوں پہ مشتمل ایک دھڑے نے کنڈی ہاوس کے سامنے دھرنے دیکر فیصل مخالف اس مہم کو بھڑکا دیا جو سوشل میڈیا پر بھی پر فقط کنڈی کنسٹریکشن کمپنی کی مبینہ کرپشن کی داستانوں تک محدود تھی۔تاہم ناراض کارکنوں کی یہ مزاحمتی مہم اگرچہ صوبائی لیڈر شپ کو ناگوار گزرے گی لیکن یہی جدلیات پارٹی کی فعالیت کا وسیلہ بھی بن رہی ہے بلاشبہ جن علاقوں میں جمود زیادہ گہرا تھا وہاں تو قیادت کی تبدیلی سے ہلچل برپا نہیں ہوئی لیکن جہاں پارٹی کے اندر تھوڑی بہت جان باقی تھی وہاں نامزدگیوں کے خلاف جاندار ردعمل سامنے آیا،جو اس بات کی علامت سمجھا جائے گا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں پیپلز پارٹی اب بھی زندہ ہے۔پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے خیبر پختون خوا میں نئے چہروں کو آگے لاکر دم توڑتی جماعت کو حیات نو عطا کرنے کی کوشش کی تو صوبائی جنرل سیکرٹری کے منصب کے لئے قرعہ فال سابق ڈپٹی سپیکر فیصل کنڈی کے نام نکلا لیکن ان کے آبائی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ناراض کارکنوں نے فیصل کنڈی کی بطور صوبائی جنرل سیکریٹری نامزدگی کو مسترد کر کے احتجاجی مہم کا آغاز کر دیا،حالانکہ صوبائی جنرل سیکریٹری شپ کو قبول کرنا فیصل کنڈی کےلئے دشوار فیصلہ تھا، وہ اسلام آباد میں قیام کی خاطر پارٹی میں کسی مرکز عہد کے حصول کےلئے سرگرداں رہے تاکہ ٹی وی کے ٹاک شوز میں بیٹھ کے پارٹی کی نمائندگی کرنے کے علاوہ خود کو قومی سیاست میں متعارف کر سکیں لیکن بوجوہ انہیں صوبائی جنرل سیکرٹری جیسے غیر منافع بخش منصب پر فائز کر کے خیبر پختون خوا کی وحشت زدہ سر زمین تک محدود کر دیاگیا جو ان کےلئے ایک ناگوار تجربہ ثابت ہو گی۔لیکن فیصل نے ہمت نہیں ہاری، مجبوراً ہی سہی ہائی کمان کے فیصلوں کو تسلیم کر کے اپنی پوری توجہ ڈی آئی خان ڈویژن پہ مرکوز کر لی،انہوں نے صوبائی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے اپنے چھوٹے بھائی احمد کریم کنڈی کو ڈویژنل صدر بنوا کے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کی مقامی تنظیموں پہ اپنی گرفت مضبوط بنائی اور پھر ایک بڑے مذہبی خانوادے کے چشم و چراغ سجاد حسین شیرازی کو ڈسٹرک صدر اور راجپوت برادری سے چوہدری حینف پیپا ایڈووکیٹ کو ضلعی جنرل سیکرٹری نامزد کروا کے اندرون شہر کی دو بڑی برادریوں کو اپنا ہمنوا بنا کر پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ کو موثر بنا لیا،ناقدین کی نقطہ چینی کے باوجود ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فیصل کنڈی کی یہ حکمت عملی پارٹی کو فعال بنانے کے علاوہ خود کنڈی خاندان کی سیاست کےلئے بھی مفید ثابت ہو گی۔ضلعی تنظیم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے سابق ایم پی اے مظہر جمیل علیزئی کا خاندان مادی لحاظ سے خوشحال ہونے کے باوجود سیاسی طور پہ منقسم رہنے کی وجہ سے اب مقامی سیاست میں اہمیت کھو رہا ہے،شہر کی اس چھوٹی مگر خوشحال برادری کے سٹی ٹو سے ایم پی اے سمیع اللہ علیزئی اور ضلع ناظم عزیزاللہ خان علیزئی پر مشتمل ایک موثر دھڑا حکمراں تحریک انصاف سے وابستگی رکھنے کے باوجود ڈلیور نہیں کر سکا،مظہر جمیل علیزئی پیپلز پارٹی کی خاطر پہلے خاندان کے سیاسی قافلہ سے الگ ہوئے اور اب پارٹی میں دیوار سے لگا دیئے گئے ہیں،خدا ہی ملا نہ وصال صنم کے مصداق انہیں پارٹی کے اندر سے تعاون ملا نہ خاندانی سطح پہ کسی موثر حمایت کی امید ہے،روایتی سادگی اورکم ہمتی انہیں لے ڈوبی،اب خود پردہ نشیں رہ کے پارٹی کی تنظیم نو کے خلاف احتجاجی تحریک کی پشت پناہی بے وقت کی راگنی اور بعداز مرگ واویلا کے سوا کچھ نہیں،یہی کام اگر وہ چند ماہ پہلے کر لیتے تو مقامی سیاست کا منظر نامہ مختلف اور ان کی سیاسی حیثیت قدرے بہتر ہوتی لیکن شومئی قسمت شریف النفس انسان ہونے کے باوجود وہ سیاست میں اپنی جگہ بنانے کا ہنر نہیں جانتے۔ اس پورے تنازعہ کا پس منظر یہ ہے کہ 2008ءکے الیکشن میں ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ این اے 24 سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی نے پارٹی کے دور اقتدار میں ڈپٹی سپیکر بننے کے بعد دیرینہ کارکنان کو فراموش کر کے آفتاب شرپاو کی طرح اپنے علاقائی گروپ کو مضبوط بنانے میں سرکھپانے لگے،جس سے کارکنوں میں مایوسی بڑھی اور پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا،فیصل کے رویہ سے دل برداشتہ ہو کر سینکڑوں نظریاتی کارکن پی پی پی چھوڑ کے تحریک انصاف سے جا ملے اور چند سرپھرے نوجوانوں نے احتجاج کی راہ اپنا کر پچھلے آٹھ سالوں سے پارٹی کو داخلی انتشار سے دوچار رکھا ہوا ہے مگر کسی سطح پہ اس کشمکش کا نوٹس نہیں لیا گیا۔2013 ءکے عام انتخابات میں پارٹی اور فیصل کنڈی کو اسی طرز عمل کی بھاری قیمت چکانا پڑی،این اے 24 جہاں سے 2008 ءکے الیکشن میں فیصل نے مولانا فضل الرحمٰن کو شکست کا مزہ چکھا کے شہرت پائی،اسی حلقہ میں عوامی نفرت سے گھبرا کر وہ ٹانک کے این اے 25 میں جا گھسے،جس کے ردعمل میں چار بار حلقہ این اے25 سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والے ٹانک کے ضلعی صدر داور کنڈی سینکڑوں کارکنوں کو ساتھ لیکر پی ٹی آئی شامل ہو گئے،اسی بدحواسی کی بدولت 2013 ءکے الیکشن میں جے یو آئی نے قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں جیت کر ڈیرہ ڈویژن سے پی پی پی کا صفایا کر دیا۔مولانا نے این اے 25 کی نشست چھوڑ کے ضمنی الیکشن میں اپنے بیٹے اسد محمود کو امیدوار بنایا تو فیصل کنڈی نے مقابلہ کرنے کی بجائے پی ٹی آئی کے امیدوار اسی داور کنڈی کی حمایت کر کے اپنی غلطیوں پہ مہر تصدیق ثبت کر دی جسے چند ماہ قبل انہوں نے پارٹی سے نکالا تھا،گویا عام انتخابات میں حلقہ این اے 25 میں اپنی مداخلت کو خود اپنے عمل سے غلط ثابت کر دیا،لیکن افسوس کہ غلطیوں کی تلافی کی بجائے وہ اسی ڈگر پہ چلنے پہ مصر ہیں،جس کا وبال بلآخر پارٹی کو بھگتنا ہے چنانچہ فیصل کی پیش قدمی پی پی پی کو انتشار کی دلدل میں اتارتی رہے گی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...