اقتصادی راہداری اور افغانستان و ایران

872

وہ ماحول جس میں بھارت کی جانب سے الزام تراشیاں جاری ہیں ایسے میں پاکستان کے لئے رجائیت کا منبع کیا ہو سکتا ہے ؟اس کا صاف اور سیدھا جواب ہے ،چین پاکستان اقتصادی راہداری ۔

پاکستان کو مسلسل سفارتی دباؤ کا سامنا ہے اسے  بھارت کے سفارتی جبر سے نکلنے  کے لئے کچھ مؤثر قدم اٹھانا ہوں گے ۔یہ نہیں کہ پاکستان  کی پالیسی یا پھر اس کی فراست میں کچھ کمی ہے بلکہ پاکستان کی جانب سے دفاعی سفارت کاری کی وجہ اس کی سرزمین پر غیر ریاستی عناصر کی موجودگی ہے ۔جو نہ صرف پاکستان کے لئے تزویراتی بوجھ بن چکے ہیں بلکہ  علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کی وہ کاوشیں جو  سیاسی اور سفارتی میدان میں  کی جا رہی ہیں ان کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ۔اگر  اڑی حملہ نہ ہوتا تو اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نواز شریف کا خطاب زیادہ قوی اور مؤثر ہو سکتا تھا ۔اگرچہ ابھی تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ کون اس کا ذمہ دار ہے مگر انڈیا نے ہمیشہ کی طرح اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا ۔

بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی  اور مقبوضہ کشمیر میں جاری تشدد پرچین کی  جانب سے پاکستان  کی حمایت کی توقع کی جا رہی تھی ۔تاہم چین بھی پاکستان میں غیر ریاستی عناصر کی موجودگی پر شکوک و شبہات کا شکار ہے  جو چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھے جاتے ہیں ۔ان عناصر کی جانب سے پاکستان میں بڑھتے ہوئے شدت پسندی کے رجحان پر بھی چین فکر مندی کا شکار ہے ۔جب یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ کچھ کالعدم تنظیمیں چین پاکستان اقتصادی راہداری پر ایک عام پاکستانی سے زیادہ جوش و خروش رکھتی ہیں اور اس ماحول میں جب ایک کالعدم تنظیم کا سربراہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اس کا گروپ اس راہداری کو سیکورٹی فراہم کر ےگا تو اس سے  چین جھنجھلاہٹ کا  شکار ہو جاتا ہے ۔

وہ ماحول جس میں بھارت  کی جانب سے الزام تراشیاں جاری ہیں ایسے میں پاکستان کے لئے رجائیت کا منبع کیا ہو سکتا ہے ؟اس کا صاف اور سیدھا جواب ہے ،چین پاکستان اقتصادی راہداری ۔پاکستان کی سیاسی اور فوجی دونوں قیادتیں  اس حوالے سے خاصی پر جوش ہیں ۔فوجی قیادت کی نظر جغرافیائی فوائد پر ہے اور حکمران جماعت اس راہداری پر ہونے والی پیش رفت کی بناء پر اپنی انتخابی مہم کو دیکھ رہی ہے ۔دونوں فریقین  اس راہداری کو پاکستان کے مسائل کے ایک حل کے طور پر دیکھتے ہیں بالخصوص معاشی حوالوں سے بھی ۔لیکن یہ کہنا آسان ہے کہ یہ واقعی  “گیم چینجر ” ہے ۔

یہ راہداری حقیقت میں ” گیم چینجر ” بن سکتی ہے ۔لیکن اس کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ ہم اپنی داخلہ اور علاقائی پالیسیوں کا بھر پور جائزہ لیں ۔داخلی طور پر ہمیں پر تشدد غیر ریاستی عناصر کی طنابیں کھینچنے کے علاوہ  ہمیں  اس راہداری پر سیاسی اتفاق ِ رائے قائم کرنا ہو گا ۔ تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان سیاسی  مکالمہ جاری رکھتے ہوئے مشترکہ مفادات  کونسل سمیت  پارلیمانی اور دوطرفہ کمیٹیوں کو متحرک کیا جائے تاکہ اس راہداری سے منسلک فوائد سمیٹے جا سکیں ۔تاہم  علاقائی پالیسیوں کا جائزہ لینا بھی ناگزیر ہے۔

بلاشبہ بھارت کی جانب سے ‘Act East’ نامی سفارتی حکمت عملی کا مقصد پاکستان کا گھیراؤ کرنا ہے جس میں وہ افغانستان اور ایران کے ذریعے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتا ہے ۔تاہم دوسری جانب پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان کو اپنی جغرافیائی پالیسیوں کے تناظر میں دیکھ رہا ہے  اگر وہ کسی رد عمل کا اظہار کرتا ہے تو بھی اس کا فائدہ بھارت کو ہوتا ہے ۔اس کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ پاکستان ایک نئی  ‘north-western policy’ بنائے تاکہ شمال مغرب میں اسے جس جغرافیائی دباؤ کا سا منا ہے  وہ کم ہو اور اس کے  ساتھ ساتھ راہداری کو محفوظ بنانے اور اس سے وابستہ معاشی و تزویراتی مفادات کو  بھی یقینی بنایا جا سکے ۔اس پالیسی کا ہدف صرف افغانستان یا ایران نہیں بلکہ اس سے بھی  آگے کے ممالک ہوں ۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں  ان سب کے لئے علاقائی استحکام   اور افغانستان و ایران میں امن کا اہم کردار ہے ۔افغانستان اور ایران صرف پاکستان کے ہمسائے نہیں وہ اس راہداری کا حصہ بن سکتے ہیں ۔بیجنگ میں موجود کئی مبصرین اس امکان کی وجہ سے علاقائی استحکام کو ناگزیر ضرورت سمجھتے ہیں  ۔پاکستان اور ایران کے تعلقات کو اب   صرف زبانی کلامی معاہدوں سے نکلنا ہو گا ۔دونوں ممالک کے درمیان 1980ء سے  انرجی ، معاشی ، فوجی اور ثقافتی تعاون کے  سینکروں معاہدے ہوئے مگر عمل در آمد صرف چند پر ہی ہو سکا ۔کاغذوں کی حد تک دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ اور برادرانہ تعلقات ہیں  لیکن عملی طور پر ہیجانی کیفیت ہے اور وہ آسیب کا شکار لگتے  ہیں ۔ایران میں اس راہداری کا حصہ بننے کے بہت زیادہ امکانات ہیں کیونکہ وہ پہلے ہی چائینا سلک روڈ اکنامک بیلٹ منصوبے میں  شریک ہے ۔سلک روڈ  ٹرین  جو کہ چین کے ساحلی شہر زی جنگ  سے ایران تک کا سفر کر چکی ہے یہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کی ایک مثال ہے ۔پہلی سلک روڈ ٹرین دس ہزار کلومیٹر  سے زائدکا سفر طے کر کے  اس سال  15 فروری کو  ایران پہنچی تھی ۔ایک اندازے کے مطابق اگر ایران اس منصوبے کا حصہ بنتا ہے تو اس سے پاکستان کے لئے معاشی فوائد بڑھ جائیں گے اور اس سے یہ امید بھی پیدا ہو جائے گی کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو عملہ جامہ پہنانے کے لئے چین کی مالی مدد بھی حاصل ہو جائے  ۔

ایران کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کا حصہ بنانے کے لئے کچھ زیادہ سفارتی کاوشوں کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ وہ  پہلے ہی اس کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کر چکا ہے ۔اس سلسلے میں پاکستان میں ایران کے سفیر کا بیان کافی حوصلہ افزا ہے جس میں انہوں نے عندیہ تھا کہ یہ حتمی ہے نہ ہی محدود  کہ  چاہ بہار منصوبہ  ایران ، افغانستان اور بھارت کے مابین ہے  ۔انہوں نے یہ بات بھی کہی کہ چاہ بہار بنانے کی پیشکش سب سے پہلے پاکستان اور چین کو کی گئی تھی مگر کسی نے بھی دلچسپی کا ظہار نہیں کیا۔چین پاکستان اقتصادی راہداری میں ایران کی شمولیت سے  اس راہداری کو بلوچستان میں غیر ریاستی عناصر سے تحفظ دینے میں مدد ملے گی ۔تاہم اس کے لئے ضروری ہو گا کہ پاکستان اپنی مشرق وسطی ٰ کی پالیسی پر نظر ثانی کرے ۔پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا اثر اس کے ہمسایوں پر نہیں پڑنا چاہئے ۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے پاکستان مین کئی آوازیں ابھر رہی ہیں ۔سیاسی جماعتیں ، سول سوسائٹی  اور مفکرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ  دونوں ہمسایوں کے درمیان باہمی تعلقات پر مکمل نظر ثانی کی جائے ۔تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ فوجی اشرافیہ ان آوازوں کو کتنی وقعت دے رہی ہے تاہم یہ وقت کا تقاضا ہے کہ افغانستان کے ساتھ باہمی اشتراک کا کوئی ضابطہ وضع کر لیا جائے ۔اس سلسلے میں اسلام آباد کو پہل  کرنی چاہئے ۔

فی الوقت یہ آسان نہیں ہو گا کہ تاریخی حقائق اور دوسری وجوہات کی بنا پر افغانستان کے لوگوں کے دل و دماغ کو جیتا جا سکے ۔اگرچہ  افغانستان کی داخلی صورتحال انتشار کا شکار ہے  تاہم پھر بھی پاکستان اگر قدم بڑھائے تو اس کے داخلی حالات پر بھی ا س کا مثبت اثر پڑے گا ، اقتصادی راہداری کے فوائد میں اضافہ ہو جائے گا ۔افغانستان میں پاکستان مخالف لوگوں کو جگہ نہیں ملے گی اور سب سے اہم بات یہ کہ عالمی سطح پر اس کا اپنا  تصور  بھی بہتر ہو گا ۔ پاکستان کےمغرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لئے  افغانستان کا  کردار انتہائی اہم ہے ۔پاکستان ، افغانستان کے ساتھ دوستی کے لئے ایک  طویل المدتی  معاہدہ کر سکتا ہے ۔ The most famous porn site nm porn watch free porn.

تاہم یہ آسان نہیں ہو گا کہ پاکستان اپنے شمال مغربی ہمسایوں کے ساتھ مفاہمت کرے  ، اگر ایسا ہو جائے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھی پاکستان کو ہی ہو گا ۔ امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گی معاشی فوائد حاصل ہوں گے بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب علاقے میں استحکام کے لئے سہAnchor طرفی اور چو رخی کا وشیں  بے سود ثابت ہو چکی ہیں ۔

(بشکریہ :ڈان ، ترجمہ ،سجاد اظہر )

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...