بم دھماکہ

1,317

اس نے بتایا کہ کیسے دہشت گردوں نے خودآکر اسے دھمکی دی اور جب اس نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو وہ فرار ہوگئے۔

پچیس پچیس تیس تیس سال کے دو نوجوان تھے، چہروں پر سبز چوکور خانوں والے سفید رومال ڈھاٹوں کی صور ت میں باندھے ہوئے کہ ان کی صورتیں پہچانی نہیں جاتی تھیں، موٹر سائیکل پر سوار وہاں آئے، چوکیدار کے پاس۔یکدم پوری قوت سے بریکیں لگا کر انھوں نے گھبرائے ہوئے انداز میں تیز تیز لہجے اور باہم الجھتے ہوئے الفاظ میں اسے بتایا کہ کالج میں ایک بم رکھا گیا ہے، جو بس کچھ ہی دیر میں چل جائے گا، اور یہ کہ یہ بہت پکی خبر ہے، وغیرہ وغیرہ۔ پھرتیزی سے بم بم کی گردان کرتے ہوئے وہ جیسی برق رفتاری سے وارد ہوئے تھے، ویسی ہی عجلت میں آس پاس مشکوک نظریںڈالتے ہوئے منظر سے باہر نکل گئے، ان کی موٹر سائیکل کے شور مچاتے سائلنسر کی آواز البتہ دیر تک سنائی دیتی رہی۔

چوکیدار کو اور تو کچھ نہ سوجھا، وہ کالج کے ایڈمن آفس میں گیا اور ایڈمن افسر ملک عنایت الہی سے جا کرتمام روداد بیان کردی۔ لڑکوں کی شناخت ممکن نہیں تھی، نہ اس بات کی توثیق ممکن تھی کہ ان کی خبر واقعی درست تھی۔ کیا کیا جائے؟ جیسے چوکیدار نے یہ سوال ایڈمن افسر کے کاندھوں پر ڈال دیا جو بھاری بھرکم تھا، وہ اکیلا اسے کیسے سنبھالتا۔ وہ کالج کی پرنسپل صاحبہ کے کمرے میں گیا اور انھیں مختصر ترین الفاظ میں اس واقعہ کی رپورٹ دی۔ انھوں نے ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر حکم جاری کیا کہ بعد میں دیکھیں گے کہ یہ خبر کتنی درست یا غلط ہے، پہلے کالج کو خالی کراو ، سب کو گراو نڈ میں لاو

، کسی کو ہوامت لگنے دو کے اصل معاملہ کیا ہے، اور فوراً بم ڈسپوزل سکوارڈ کو اطلاع کرو۔ سب کچھ فوراً کرو۔ ایڈمن افسر کے جاتے ہی انھوں نے فون کرکے اپنے ڈرائیور کو گاڑی فوراً کار لاو نج میں لانے اور انجن بند کیے بغیر ان کا انتظار کرنے کو کہا۔

ایڈمن افسر سے یہ بات اسسٹنٹ ایڈمن افسر اور سپرنٹنڈنٹ تک گئی اور پھر اس کے بعد سبھی عملے میں پھیلی۔ تھوڑی ہی دیر میں تمام کالج اس خبر سے گونج رہا تھا۔ بم کسی بھی لمحے چل سکتا تھا۔ یہاں سے فوراً بھاگ لینے ہی میں عافیت تھی۔ جتنی جلد کوئی ممکنہ رکاوٹیں پھلانگتا ہوایہاں سے ممکنہ حد تک دور چلا جائے گا، اتنا ہی اس کے بچ جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔

پھر کیا تھا، لڑکیوں سے پہلے ان کی اساتذہ نے گرتے پڑتے کلاسوں سے باہر کی طرف دوڑ لگائی۔ گراو نڈ میں کون رکتا۔ خود پرنسپل بھی کہاں ٹھہری تھیں۔ سبھی کا رخ گیٹ کی طرف تھا۔ چوکیدار آکر گیٹ کھولے، اس انتظار کا بھی یارا کس میں تھا۔ خاص کر جب کہ چوکیدار تو پہلے ہی سڑک پار کر کے مسیحیوں کی کالونی میں پہنچ چکا تھا جہاں اس کا گھر تھا۔ لیکن وہ اپنے گھر نہیں گیا، کالج سے اتنا دور ہوجانے پر کہ اسے بم کی زد سے نکل جانے کا یقین ہوسکے، وہ رکا اور کالج کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوگیا۔ وہیں مصباح الیکٹرک سٹور پر کھڑے ہوکر، جسے اس کے ایک محلہ دار چلاتا تھا، اس نے بتایا کہ کیسے دہشت گردوں نے خودآکر اسے دھمکی دی اور جب اس نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو وہ فرار ہوگئے۔ ایک انبوہ اس کی روداد سننے وہاں اکٹھا ہوگیا۔ ویسا ہی انبوہ کالج کے سامنے سڑک پر بھی جمع تھا۔

سارا کالج ایک ساتھ گیٹ کی طرف امنڈآیا تو اس کے باوجود کہ اس کے دونوں پٹ کھلے تھے، سبھی ایک دوسرے کے اوپر ڈھنے لگےں اور ایسے ہجوم کی صورت کی ہوگئیں جو ایک دوسرے کو باندھے ہوئے ہو، اور کوئی بھی کسی کو آگے بڑھنے نہ دے رہا ہو۔بہت سی تو ہجوم کے عظیم الجثہ پیر کے تلے کچلی گئیں۔ اوپر کی منزلوں میں موجود خواتین سیڑھیوں میں ایک دوسرے کو روندتی ہوئی گزرتی رہیں۔ بہت سی زینوں پر سے لڑھک گئیں۔ ان کی چیخ و پکار اور آہ و بکا نے خوف و ہراس کی ایسی گہری اور تاریک فضا استوار کی، کہ سڑک کی پرلی طرف کھڑے لوگوں کے ہجوم میں شدید تشویش کی لہر دوڑ دوڑ جاتی لیکن کسی نے ہمت نہ پڑتی کہ آگے بڑھ کر کسی کی مدد کرے۔ ایمبولینس کو البتہ کسی نے فون کردیا تھا، لیکن وہ بھی جبھی آئے گی، جب بم سکوارڈ والے آکر علاقے کے خطرے سے پاک ہونے کا اشارہ دیں گے۔

کالج سے باہر کوئی پچاس ایک قدموں کے فاصلے پر وسیع و عریض ہاتھی چوک واقعہ ہے جہاں دوپہر تک مزدوروں اور کاریگروں کی ٹولیاں آنے جانے والوں کو چپکو نظروں سے کھڑی تکتی رہتی ہےں کیوں کہ وہ جانتی ہےں، انھی میں سے کوئی ہوگا جو آگے بڑھ کر کہے گا کہ اسے کسی کام کے لیے ان کی ضرورت ہے۔ اور یوں وہ کام پر لگ جائیں گے۔ دوپہر سے کم ہی مزدور وہاں بچ رہتے۔ تاہم اس روزلگتا تھا، ان میں سے کوئی ایک بھی کم نہیں ہوا، وہ تقریباً سبھی کالج کی طرف روانہ ہورہے تھے، جب وہی موٹر سائیکل والالڑکا وہاں آکر ایک طرف دانتوں کے ایک کلینک کے برابر آکر رکا۔ اب وہ اکیلا تھا۔ انجن اس نے بند نہیں کیا۔ اپنے چہرے پر سے نقاب البتہ اس نے ہٹا لیا تھا اور صاف دکھائی دیتا تھا کہ وہ خود بھی کسی کالج کا طالب علم تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں کالج کے ہاو

ہو کے منظر سے ایک لڑکی، سترا اٹھارہ برس کی برآمد ہوئی۔ وہ سیدھی اسی طرف چلی آرہی تھی، اور اس پریشان کن منظر میں سے برآمد ہونے کے باوجود اس کے چہرے پر تفکر اور تشویش کے آثار ندارد تھے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔ جونہی وہ قریب آئی، نوجوان نے موٹرسائیکل کا رخ موڑا، اور اسے چاندنی چوک کی طرف کرلیا، لڑکی اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔ چاندنی چوک میں میکڈونلڈ میں لڑکے نے ایک میز پہلے سے اوپر کی منزل میں شیشے کی دیوار کے برابر ریزرو کروا رکھا تھا۔تم ٹھیک توہو۔“ لڑکے نے ہلکا سا چہرہ موڑتے ہوئے کہا تو لڑکی مسکرائی،”میں پہلے ہی گراو نڈ میں آگئی تھی۔ لڑکیاں تو پاگل ہیں۔ ٹیچرز ان سے بھی زیادہ۔ توبہ توبہ۔میں نے انھیں آتا دیکھاتوبھاگتی ہوئی گیٹ سے باہر آگئی۔ آسانی سے ہوگیا سب کچھ۔ تم ایسے ہی گھبرا رہے تھے۔

ہاں ایسے ہی گھبرا رہا تھا۔“ لڑکے نے جیسے اپنے آپ سے کہا اور موٹر سائیکل کو گیئر میں ڈال کر ریس بڑھا دی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...