‘‘مہاجر‘‘سیاست ایک نئے موڑ پر

1,126

کراچی میں بھی پیپلزپارٹی سندھی اوربلوچی آبادیوں تک محدودہے جبکہ مہاجرآبادیوں کی نمائندگی کے نام پرچند مخصوص پرانے چہروں کوسامنے لایاجاتاہے جومہاجرآبادیوں سے کونسلربھی منتخب نہیں ہوسکتے.

ستمبر 2013 میں شروع ہونے والے کراچی آپریشن اوراگست 2016 میں متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین کی ایک متنازعہ تقریر کے بعد سندھ کے شہری علاقوں خصوصا کراچی اورحیدرآباد کی ‘‘مہاجر’’سیاست پرگہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ بظاہر1988 ء سے سندھ کے شہری علاقوں پرراج کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ اس وقت تین حصوں میں منقسم ہے مگر سیاسی تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ آئندہ سال متوقع عام انتخابات ہی سے ‘‘مہاجر’’سیاست کے نئے رخ کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔
کراچی آپریشن میں طالبان گروپوں، لیاری کے جرائم پیشہ گروپوں اورفرقہ پرست تنظیموں کے ساتھ ساتھ لسانی سیاسی جماعتوں کے پرتشدد گروپوں کوبھی نشانہ بنایاگیاجس میں متحدہ قومی موومنٹ سرفہرست رہی جو سندھ کے شہری علاقوں خصوصا کراچی اورحیدرآباد کی ایک موثرپارلیمانی جماعت ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی اس وقت دیکھنے میں آئی جب 11 مارچ 2015 کی رات رینجرزنے پارٹی ہیڈکوارٹر ‘‘نائن زیرو’’پرچھاپہ مارکرکئی کارکنوں کوگرفتار کیا جن میں صحافی ولی خان بابرکے قتل میں ملوث ملزمان بھی شامل تھے۔ البتہ کریک ڈاؤن کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ دسمبر 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں کراچی اورحیدرآباد میں فاتح قرارپائی۔اسی دوران متحدہ قومی موومنٹ کے دو ناراض رہنماؤں مصطفی کمال اورانیس قائم خانی کی شہرمیں واپسی، پارٹی سے بغاوت اورنئی جماعت ’پاک سرزمین پارٹی، کے اعلان کے بعد پارٹی کو ایک نئے مگراندرونی بحران کا سامنا کرناپڑا جہاں اب تک متعدداراکین سندھ اسمبلی اوررابطہ کمیٹی کے سابق اراکین نے پارٹی سے علیحدگی اختیارکرکے نئے دھڑے کی حمایت کا اعلان کیاہے۔
اس بحران سے نپٹنے میں مصروف متحدہ قومی موومنٹ کی مشکلات میں مزید اضافہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب 22 اگست کو پارٹی قائد الطاف حسین کی جانب سے کراچی پریس کلب میں پارٹی کی جانب سے منعقدہ بھوک ہڑتالی کیمپ سے برطانیہ سے ٹیلیفون پر پاکستان مخالف تقریر کی گئی اور اس کے بعد ایم کیوایم کارکنوں کی جانب سے  میڈیا اداروں اوراہلکاروں پرحملے کئے گئے۔ ایم کیوایم کی سیاست پرگہری نظررکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ الطاف حسین کی یہ تقریر ایم کیو ایم کارکنان کے خلاف ریاستی ادارے کی کارروائیوں کے لیے ایک مضبوط جواز بننے کے ساتھ ساتھ پارٹی میں بھی بغاوت کاسبب بن گئی۔ ایم کیوایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹرفاروق ستار نے پارٹی کے قومی وصوبائی اسمبلی کے اراکین کے ہمراہ ایک اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں ایم کیوایم کے احتجاجی کیمپ میں لگنے والے پاکستان مخالف نعروں سے لاتعلقی کااظہارکرتے ہوئے مذمت کی۔ سیاسی اورمبہم انداز میں پریس کانفرنس کرکے یہ باورکراکربگڑتی ہوئی صورت حال پرقابوپانے کی کوشش کی کہ ایم کیوایم پاکستان میں رجسٹرڈایک سیاسی جماعت ہے اوراس کے معاملات بھی آئندہ پاکستان سے ہی چلائے جائیں گے۔ یوں متحدہ قومی موومنٹ خود لندن اورپاکستان کے دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ البتہ رینجرزکی جانب سے پارٹی ہیڈکوارٹرنائن زیروکومستقل بنیادوں پرسیل کردیاگیا جبکہ کراچی اورحیدرآباد بھرمیں قائم پارٹی کے دفتروں کومسمارکیاگیا۔
حال ہی میں متحدہ قومی موومنٹ کے مخالف سمجھے جانے والے مہاجرقومی موومنٹ، (جوحقیقی کے نام سے مشہورہے) نے بھی دوبارہ اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کرتے ہوئے ‘مہاجر’سیاست میں فعال ہونے کافیصلہ کیا اورمہاجرسیاست کرنے والی جماعتوں کواتحاد کرنے کا عندیہ بھی دیاہے۔ 1992 میں ایم کیوایم کے خلاف جاری فوجی آپریشن کے دوران آفاق احمد، عامر خان، اور دیگر نے ایم کیو ایم سے راہیں جدا کر کے ایم کیو ایم حقیقی کی بنیاد رکھی تھی۔ کراچی کے علاقے لانڈھی، ملیر، لائنز ایریا اور شاہ فیصل کالونی کے علاقے حقیقی کے زیر اثر تھے اور یہاں ایم کیو ایم کے کارکنوں کے داخلے پر غیر اعلانیہ پابندی تھی اسی طرح جو ایم کیو ایم کے علاقے تھے وہاں حقیقی کے کارکنوں کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ دونوں جماعتوں کے مابین لڑائیوں میں سینکڑوں مہاجر کارکنان مارے بھی گئے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے 2003 میں اپنی ڈکٹیٹرشپ کودوام دینے کے لئے جب متحدہ قومی موومنٹ سے اتحاد کیا تھا تو حقیقی کے لیے مشکل دور کا آغاز ہوا۔ لانڈھی میں واقع تنظیم کے مرکز ‘‘بیت الحمزہ’’ کو منہدم کردیا گیا۔ آفاق احمد اور عامر خان گرفتار ہو گئے جبکہ کارکنوں نے روپوشی اختیار کرلی۔ 2011 میں آفاق احمد اور عامر خان رہا تو کر دیے گئے لیکن تنظیم اختلافات کا شکار ہوگئی اور عامر خان نے متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کرلی
2013 میں کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد جہاں کچھ سیاسی جماعتوں کو ریلیف ملا  تو ایم کیو ایم حقیقی بھی اپنے علاقوں میں واپس آئی۔
یوں کراچی کی مہاجرآبادیوں میں ‘‘مہاجرسیاست‘ کے نام پرچارجماعتیں فعال ہیں جن میں متحدہ قومی موومنٹ (لندن)، متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان)، پاک سرزمین پارٹی اورمہاجرقومی موومنٹ (حقیقی) شامل ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ(لندن) پاکستان کی سیاست میں اس وقت ایک کالعدم جماعت کی طرح کام کررہی ہے جس کافوکس مہاجرقوم پرستی ہے جبکہ دیگرتین جماعتیں مہاجرنمائندگی کی سیاست کررہی ہے جس کی وجہ کراچی آپریشن سے پیداہونے والے خلاء کی وجہ سے مہاجر کمیونٹی میں پیداہونے والا احساس محرومی ہے جس کی اہم وجہ پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کا کراچی کی مہاجراکثریتی آبادیوں کویکسرنظراندازکرنا ہے۔ شہرکے بلدیاتی مسائل کی سنگینی کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ مہاجرجماعتوں کے علاوہ تحریک انصاف اورجماعت اسلامی بھی شہرکے بلدیاتی مسائل کے حل کے لئے ریلیاں اورمظاہرے کرنے لگی ہیں۔
اس حوالے سے کراچی کی سیاست پرگہری نظررکھنے والے مبصرین کہتے ہیں کہ کراچی آپریشن کے بعد سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن)، پاکستان تحریک انصاف اورجماعت اسلامی کوکراچی کی اکثریتی مہاجرآبادیوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے بحران کافائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی کام کرنے کا موقع ملا مگریہ جماعتیں بری طرح ناکام رہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی سندھ حکومت کاحصہ ہے جس کے تمام وزراء صوبے کے دیہی علاقوں سے منتخب ہیں اورانہیں شہرکے مسائل کا ادراک تک نہیں ہے۔ کراچی میں بھی پیپلزپارٹی سندھی اوربلوچی آبادیوں تک محدودہے جبکہ مہاجرآبادیوں کی نمائندگی کے نام پرچند مخصوص پرانے چہروں کوسامنے لایاجاتاہے جومہاجرآبادیوں سے کونسلربھی منتخب نہیں ہوسکتے۔ مسلم لیگ(ن) بھی شروع ہی سے سندھ کی سیاست سے لاتعلق رہی ہے اوریہی وجہ ہے کہ پارٹی کے کراچی سے منتخب ایم این اے اورایم پی ایزپارٹی چھوڑکرپی پی پی میں شامل ہوگئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اورجماعت اسلامی بھی مہاجرآبادیوں میں اپنی حمایت پانے میں برح طرح ناکام ہوئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلے کافی دنوں سے ایم کیوایم کے دھڑوں میں اتحاد اورانضمام کی خبریں ذرائع وابلاغ میں آرہی ہے کیونکہ ایم کیو ایم کی ابتدائی قیادت اس وقت تین جماعتوں میں موجود ہے۔البتہ تینوں مہاجر جماعتوں کے رہنما اتحاد اورانضمام کی خبروں کو رد کررہے ہیں۔ مبصرین کاکہناہے کہ آئندہ سال متوقع عام انتخابات ہی سے ‘‘مہاجر’’سیاست کے نئے رخ کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔
(مصنف کراچی میں مقیم ایک صحافی اورمحقق ہے)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...