ہمارے بچوں کو پری سکولوں کی نہیں لینگویج نرسریوں کی ضرورت ہے

938

ماہرین تعلیم کا جہاں اس بات پر اتفاق ہے کہ بچے کی ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں ہونی چاہیے وہاں اس پر بھی اتفاق پایاجاتا ہے کہ بچہ تین سے چھ سال کی عمر میں متعدد زبانیں سیکھ سکتا ہے

گذشتہ  کویت  کے معروف  جریدے المجتمع میں ایک رپورٹ شائع ہوئی  کہ امریکہ ،کینیڈا،برطانیہ  اور دیگر مغربی ممالک میں  مقیم عرب مسلمانوں نے اپنے بچوں کو  ابتدائی تعلیم   گھروں میں دینا شروع کر  دی ہے ،بچوں کے والدین نے اس کی  وجہ یہ بتائی ہے کہ  وہ  اپنے بچوں کو  ابتدا میں دینی  اور مشرقی اقدار کی تعلیم دینا چاہتے ہیں  جو کہ  مغربی سکولوں میں ناممکن ہے،اس مقصد کے لیے  انہوں نے   گھر میں ہی  ٹیوٹرز کا انتظام کر لیا ہے۔

ہمارے ہاں بھی عموما بچے کی تعلیم سے متعلق والدین فکرمند ہوتے ہیں اور ان کے لیے بہتر سے بہترادارے   کا انتخاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور  انسان کی جلد باز فطرت کے مطابق یہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد بچہ  سکول میں جا کر پڑھنا لکھنا شروع کر دے،یہی وجہ ہے کہ آجکل  اڑھائی سال  کے بچے کو  نرسری ،روضہ یا پری سکول میں داخل کروا دیا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ   بچے کی تعلیم کی ابتد ا کہاں سے کی جائے  ؟اور آیابچہ اس عمر میں  باقاعدہ سیکھنے کے لیے تیار  بھی ہوتا ہے یا نہیں؟عام طور پر پری سکول   سے ہی بچے پر لکھنے اور پڑھنے کا  کافی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے اور  پھر اس پر مستزاد یہ کہ ہوم ورک کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے،بعض سکولوں میں تو اسی مرحلے  سے ہی ہفتہ وار ٹیسٹ  لیا جانابھی مشاہدے میں آیا ہے۔والدین اس ساری صورتحال  پر پریشان ہونے کے باوجود اس “ظلم” پر خاموش تماشائی  بنے رہتے ہیں اور نتیجتا جلد ہی بچہ   میں اکتاہٹ اور  سکول کی نفرت پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔اب آپ ہی بتائیں کہ  جس بچے کو آٹھ سے دس گھنٹے سونا چاہیے اور اپنی نیند مکمل کر کے ازخود بیدار ہونا چاہیے اگر اسے صبح چھ بجے سے بھی پہلے اٹھا کر روتے   پیٹتےسکول روانہ کر دیا جائے تو اس کے دل میں والدین اور سکول کے بارے میں نفرت پیدا  نہیں ہو گی تو اور کیا ہو گا؟ لیکن آئے دن اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے  بھی اسے معمول کی بات سمجھ کر ہم آگے بڑھ جاتے ہیں۔

آئیے ذراغور کرتے ہیں  کہ  بچہ کو تین سال سے چھ سال کے دوران کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے کس طرح پورا کیا جا سکتا ہے؟

ماہرین تعلیم کا جہاں اس بات پر اتفاق ہے کہ  بچے کی ابتدائی تعلیم  اس کی مادری زبان میں ہونی چاہیے وہاں اس پر بھی اتفاق پایاجاتا ہے کہ   بچہ تین سے چھ سال کی عمر  میں متعدد زبانیں سیکھ سکتا ہے، بچے کی تعلیم تو  سکول سے شروع ہوتی ہے نہ کہ پری سکول سے،اس لیے  جب چھ سال کی عمر میں بچہ   کلاس ون  سے سکول شروع کرے تو اسے مادری تعلیم میں ہی تعلیم دی جائے اور دیگر زبانیں بطور  سبجیکٹ کے پڑھائی جائیں لیکن  پری سکولنگ کی عمر تو زبانیں سیکھنے کی ہے،اس میں کم از کم ایک  اجنبی زبان لازمی سکھا دینی چاہیے،اس سے بچے کی تخلیقی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہو گا اور  اس میں ترجمے  کی صلاحیت  جو کہ   دو زبانوں پر مکمل  دسترس ،اور اسکے بعد  ترجمہ  کی مشق  و ریاضت کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہےبچپن سے ہی پیدا ہو جائے گی، مشاہدہ  اور تاریخ یہی  بتاتی ہے کہ اس نادر اور اعلی  فن میں کمال اور نام  انہی لوگوں  نے  کمایا جنہوں نے تین سے چھ سال کی عمر کے دوران  کوئی دوسری زبان سیکھ لی تھی،علوم ترجمہ کے معروف سکالر  رومن جیکبسن   نے بچپن ہی سے مختلف زبانیں سیکھنا شروع کر دی تھیں،اسی طرح دیگر   سکالرز میں  بھی  وہیں نمایاں ہیں جن کے گھر   میں ماں اور باپ  کی الگ الگ زبانیں ہونے یا  علاقائی  اور قومی و سرکاری   زبانوں کے مختلف  ہونے  کی وجہ  سے  دو  یا دو سے زیادہ زبانیں بولی جاتی تھیں۔

اس لیے  پری سکول تعلیم دینے والوں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے،یہ کام  کسی زبان کو  بطور سبجیکٹ پڑھا دینے سے نہیں ہو گا بلکہ  زبان کو زبان کی طرح ہی سیکھنے کا ماحول فراہم کرنا ہو گا،بچہ  کو زبان سیکھنے کے مخصوص اوقات میں ہر قسم کے کھیل  کود کی اجازت ہو لیکن اس دوران اسے اپنے آس پاس کوئی بھی ایسا شخص نظر نہ آئے جو   اس کے  مطلوبہ  زبان کے علاوہ  کسی زبان میں گفتگو کرے،یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے بلکہ زبان سیکھنے کا آسان ترین طریقہ ہے،اس کے لیے ہمیں صرف اتنا کرنا پڑے گا کہ ہم اپنی نرسریوں اور پری  سکولوں کو  لینگویج  سکولوں میں تبدیل کر دیں۔

بدلتی ہوئی دنیا اور گلوبلائزیشن  کے پیش نظر  ضروری ہے کہ  ہم زبانوں  اور فن ترجمہ کی تعلیم   کو فروغ دیں،اور  تھوڑے وقت میں بہتر  انداز سے  زبان سیکھنے   کی عمر  سے ہی اپنے بچوں  کو  مختلف زبانیں سکھانے کا آغاز کر دیں،اب یہ دور  زبانوں کی نرسریوں کا ہے،انگلش نرسری،عربی نرسری،چینی،ترکی اور فرینچ نرسریوں کا دور۔

زبان سیکھنے کے علاوہ  بچہ میں   حفظ اور یاد کرنے کی صلاحیت  بھی  بہت تیز ہوتی ہےاس لیے  دوسرا سبجیکٹ دعاؤں،نماز  کے سبق اور قرآنی سورتوں کے حفظ کا  ہونا چاہیے،جبکہ تیسرا سبجیکٹ اخلاق،ڈسپلن اور مینرز کی تعلیم کے لیے ہونا چاہیے، یہ آخری  دو تو عموما    ہماری نرسریوں میں  ہوتے ہی ہیں،مگر  زبان دانی پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...