جماعت اہل سنت والجماعت کا فرقہ واریت کو الوداع

1,488

دونوں جماعتوں کے متحد ہوکر الیکشن لڑنے کی صورت میں خیبر پختون خواہ اوربلوچستان میں جے یوآئی(ف) کی پوزیشن مستحکم جبکہ پنجاب اورسندھ، خصوصا کراچی سے متعدد نشستیں حاصل کرنے میں کامیابی بھی ہو سکتی ہے .

قانون نافذکرنے والے اداروں کی جانب سے جاری کریک ڈاﺅن سے پریشان مگر جھنگ اورکراچی میں انتخابی معرکوں میں فتح کے بعد پرامید اہلسنت والجماعت کی قیادت نے سنجیدگی سے فرقہ وارانہ سیاست چھوڑ کرپارلیمانی سیاست میں قدم رکھنے کافیصلہ کیاہے اورانتخابی سیاست میں قدم رکھنے کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام (ف) سے اتحاد کی بات چیت بھی شروع ہوگئی ہے۔

فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث ہونے کے الزام کی وجہ سے پاکستانی حکومت اہلسنت والجماعت کو باقاعدہ کالعدم قراردے چکی ہے جبکہ اس سے قبل یہ سپاہ صحابہ پاکستان اورملت اسلامیہ پاکستان کے نام سے فعال تھی جنہیں بھی کالعدم قراردیاجاچکاہے۔’تجزیات‘ کومذہبی سیاسی رہنماﺅں نے بتایاکہ ملک میں جاری آپریشن کے سلسلے میں اہلسنت والجماعت بھی کافی متاثرہوئی ہے اورجماعت کے سینکڑوں فعال کارکنان اورہنما لاپتہ ہوچکے ہیں جن میں اکثر کوماورائے عدالت مقابلوں میں قتل بھی کیاجاچکاہے۔ اس حوالے سے جماعت ملک بھرمیں اپنے لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کے لئے مظاہرے بھی کررہی ہے۔

البتہ جھنگ کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 78 میں ماہ دسمبرمیں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اہلسنت والجماعت کے رہنما مسرورنوازجھنگوی کی آزاد حیثیت میں فتح کے بعد پارٹی کی مرکزی قیادت نے فرقہ وارانہ سیاست ترک کرکے پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کافیصلہ کیاہے۔ اہلسنت والجماعت کے مرکزی صدرعلامہ اورنگزیب فاروقی نے بھی کراچی میں گزشتہ ہفتے صحافیوں کی ایک غیررسمی نشست میں کھل کرکہاکہ وہ کسی بھی جماعت کے پلیٹ فارم کوکسی بھی فرقہ کے خلاف نعرے بازی یا تشدد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اورنہ ہی کسی بھی تشددپسند اقدام کی حمایت کریں گے۔علامہ فاروقی نے یہ بھی کہاکہ وہ ملکی قوانین کااحترام کرتے ہیں اورکسی بھی پرتشددگروہ سے ان کی جماعت کاتعلق نہیں ہے۔

پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی سیاست پرگہری نظررکھنے والے ماہرین گزشتہ چند ہفتوں سے اہلسنت والجماعت کی فرقہ وارانہ اورپرتشددسیاست ترک کرنے اور’مین اسٹریم‘ میں آنے کے اشارے دے رہے ہیں۔ اسلام آباد میں مقیم سیکیوریٹی امورکے ماہر محمد عامررانا نے بھی روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک  کالم میں اہلسنت والجماعت کا نام لئے بغیرلکھا کہ ایک بڑا فرقہ پرست گروپ ماضی کی پرتشدد سیاست ترک کرکے مین اسٹریم سیاست میں حصہ لینے کا سوچ رہا ہے اور کھلے عام یہ اعلان کرنے کے لئے بھی تیارہے کہ مستقبل میں ان کی جماعت کے پلیٹ فارم سے کسی فرقے کے خلاف نعرے بازی نہیں ہوگی۔ محمد عامررانا کاکہنا تھاکہ ریاست فرقہ کی بنیاد پر فعال ایسے گروہوں کے ایسی پیشکشوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں پرامن سیاست میں لانے کی اجازت دے جس کی وجہ سے ان کے انتہاءپسندگروپوں سے رابطے منقطع ہوسکتے ہیں۔

پارلیمانی سیاست میں قدم رکھنے کے حوالے سے اہلسنت والجماعت کی قیادت نے فیصلہ کرلیاہے کہ وہ جمعیت علمائے اسلام(ف) کے ساتھ مل کر2018 ءکے عام انتخابات میں حصہ لیں گے۔ جمیعت علمائے اسلام(ف) کے اہلسنت والجماعت سے بھی اچھے تعلقات رہے ہیں۔ جے یوآئی(ف) پاکستانی پارلیمان میں سب سے بڑی سیاسی مذہبی جماعت ہے جودیوبندی مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے کے باوجود تمام فرقوں اورمسالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتی چلی آرہی ہے جس کی بڑی مثال 2002 ءکے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کا قیام تھا جبکہ اہلسنت والجماعت شروع ہی سے جہادی تنظیموں مثلا جماعت الدعوہ اورانصارالامہ یا جے یوآئی ہی کے دھڑوں جسے سمیع الحق اورنظریاتی کے ساتھ اتحادوں میں چلی آرہی ہے جن میں دفاع پاکستان کونسل اورمتحدہ دینی محاذ شامل ہے۔ البتہ اہلسنت والجماعت کو پارلیمانی سطح پرکوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اہلسنت والجماعت اورجے یوآئی(ف) کے مابین برف اس وقت پگھلنے لگی جب جھنگ کے ضمنی الیکشن میں اہل سنت ولجماعت کے امیدوار مولانا مسرورنواز جھنگوی کو جماعت نے جے یو آئی(ف) میں شامل کروایا۔ اس کے بعد دونوں جماعتوں کے قائدین مولانا فضل الرحمان ،مولانا احمد لدھیانوی اور مولانا اورنگ زیب فاروقی کے مابین متعدد ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔ اورنگ ریب فاروقی نے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ جے یو آئی اور اہلسنت و الجماعت  میں اس وقت جو قربت نظر آرہی ہے اس سے پہلے نہیں تھی ،دونوں جماعتوں کی قیادت اس نکتے پر متفق ہے کہ مل کر الیکشن میں حصہ لیں گے اگر ایسا نہیں ہوسکا تو کم ازکم ایک دوسرے کے مدمقابل امیدوار کھڑے نہیں کریں گے ۔مبصرین کاکہناہے کہ دونوں جماعتوں کے متحد ہوکر الیکشن لڑنے کی صورت میں خیبر پختون خواہ اوربلوچستان میں جے یوآئی(ف) کی پوزیشن مستحکم جبکہ پنجاب اورسندھ، خصوصا کراچی سے متعدد نشستیں حاصل کرنے میں کامیابی بھی ہو سکتی ہے ۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...