لاہور حملہ اور دہشت گردوں کے ممکنہ اہداف ؟

925

دو درجن سے زائد انٹیلی جنس اداروں کا کا م بھی صرف الرٹ جاری کرنا ہے اور شاید دہشت گردوں کو کارروائی سے قبل گرفتار کرنے کے لیے ایک اور ادارہ بنانا ہو گا؟

سوموار کی شام مال روڈ لاہور پرچیئرنگ کراس کے مقام پر سرزمین پاک کو ایک مرتبہ پھر چند اور بےگناہوں کے  خون ناحق  سے نہلا دیا گیا. مبینہ خود کش دھماکے میں چھ پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 13 افراد جاں بحق اور اسی سے زائد  زخمی  ہوئے . جاں بحق ہونے والوں میں لاہورڈی آئی جی ٹریفک احمد مبین اور ایس ایس پی آپریشنز زاہد محمود گوندل بھی شامل ہیں۔ڈرگ ایکٹ کے خلاف مظاہرے کے دوران کیے جانے والے اس دھماکے کی زمہ داری تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ جماعت الاحرارنے قبول کی.

سوالات اپنی جگہ پر موجود ہیں.کیا دہشت گرد گروہ کا ہدف پولیس تھی ، عوام یا پھر پاکستان میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو بحال کرنے کی کوششیں؟ وزارت داخلہ کی جانب سے تھریٹ الرٹ جاری کرنے کے باوجود موثر سیکورٹی اقدامات سے اس حملے کو ناکام کیوں نہیں بنایا جا سکا ؟کیا اس حملے سے دنیا میں امن عامہ کے حوالے سے پاکستان کے بہتر ہوتے ہوئے  تصور کو پاش پاش کرنا تھا ، یا پھر پاکستان کی نسبتا سنبھلتی ہوئی معیشت نشانے  پر تھی ؟دشمن کا مقصد اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے ملک میں نقص امن کی صورت حال پیدا کرناہے ؟ ضرب عضب میں ٹوٹ جانے والی کمر کے ساتھ دہشت گرد کیونکر اس قابل ہو گئے کہ وہ ملک کے ثقافتی مرکز کو ایک مرتبہ پھر نشانہ بنا سکیں ؟ ہماری انسداد دہشت گردی کی پالیسی اگر ہے تو ناکام کیوں ہے؟

عمومی تاثر یہی ہے کہ لاہور دھماکہ پاکستان سپر لیگ اور کھیلوں کی سرگرمیوں کو پاکستان واپس لانے کے خلاف ایک سازش ہے . ممکنہ  طور پر یہ بھی ایک ہدف ہو سکتاہے کیونکہ جماعت الاحرار میں لشکر جھنگوی اور پنجابی طالبان کی ایک خاطر خواہ  تعداد موجود ہے جو ماضی میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے میں ملوث تھے.مگر جماعت الاحرار کے گزشتہ چند روز کی پروپیگنڈہ مھم سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اہداف اس سے کہیں زیادہ وسیع تر اور کثیرالجہتی ہیں. چند روز قبل جماعت الاحرار کی اعلٰی قیادت نے ایک وڈیو پیغام کے توسط سے ‘آپریشن غازی’ کے نام سے ایک نیا عسکری آپریشن شروع کرنےکا اعلان کیا تھا .جس میں پاکستان کی پارلیمنٹ ، عدلیہ ، معاشی اداروں ، فوج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں،این.جی.اوز ،حکومتی امن کمیٹیوں کے اراکین ، میڈیا ، تعلیمی اداروں اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا گیا.

لاہور دھماکے سے ایک ہی وقت میں عوام ، پولیس اور میڈیا کو نشانہ بنا کر جماعت الاحرار نے متعدد اہداف حاصل کئے ہیں ، جن میں عوام اور پولیس میں خوف و ہراس پھیلانا ، میڈیا اور بیرون دنیا کی توجہ حاصل کرنا، امن عامہ کے حوالے سے پاکستان میں بہتری کے تاثر کو نقصان پہنچانا اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کی پاکستان آمد کو روکنا شامل ہیں. اس سے ظاہر ہے کہ معاملہ صرف پی.ایس. ایل تک محدود نہیں ، بلکہ ملک میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر شروع کرنا ہے. جس سے پاکستان کے دفاع اور معشیت پر کاری ضرب لگائی جا سکے.

جماعت الاحرار ماضی قریب میں واہگہ بارڈر حملہ ، لاہور چرچ حملہ ، چارسدہ کورٹ حملہ اور  گزشتہ سال مارچ میں ایسٹر کے تہوار کے موقع پر لاہور پارک میں مسیحی برادری پر ہونے والے بھیانک حملوں میں ملوث رہی ہے . صرف ایسٹر کے موقع پر کیے جانے والے حملے میں 70سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے تھے.

تھریٹ الرٹ کے باوجودخودکش بمبار کی کامیاب کاروائی سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان الرٹس کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور ہماری آ نکھیں خودکش دھماکے سے ہی کھلتی ہیں ، جب کہ دو درجن سے زائد  انٹیلی جنس اداروں کا کا م بھی صرف الرٹ جاری کرنا ہے اور شاید دہشت گردوں کو کارروائی سے قبل گرفتار کرنے کے لیے ایک اور ادارہ بنانا ہو گا؟اس خود کش بمبار کو کوئی شہرمیں لایا ہو گا ، کسی نے اسے پناہ دی ہو گی ، کوئی اس کو اپنے ہدف تک لایا ہو گا، آخر اس تمام عرصہ میں قانون نافد کرنے والے ادارے نیند کے علاوہ کیا کرتے رہے ہیں؟

انسداد دہشت گردی پالیسی کی قومی پالیسی پر من و عن عمل کرنا وقت کی عین ضرورت ہے جس کا کلیدی نقطہ’دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے شدت پسندی پر وار کرنا’ اور متبادل بیانیه کی تخلیق و ترویج ہے. اس کے ساتھ ساتھ عسکری کامیابیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی عمل سے ان کامیابیوں کو دائمی بنانا ہو گا .پاکستان کا مستقبل نئے اور سنگین خطرات سے پر نظر آ رہا ہے جس میں نئے عزم ، ہمت ، حوصلے اور پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہے.

لاہور حملہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہئے..کمر دہشت گردوں کی نہیں ٹوٹی بلکہ شائد ہماری کمر جواب دے چکی ہے . ہم سیاست میں مکمل محو تو دشمن نئے عزم کے ساتھ نئی صف بندیوں میں مصروف عمل ہے. آنکھیں کھولیے حضور مگر بم دھماکوں سے قبل ، یہ ملک ہے تو آپ کی سیاست ہے. پھر سے کمر کسئیے اور میدان سیاست میں ایک دوسرے کی ناک رگڑنے کے بجائے ملک کی ڈوبتی نیہ کو پار لگائیے. وگرنہ ..

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...