دہشت گردی کی لہر، پس پردہ عوامل اور راہ حل !

821

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ باہم مربوط حملے ایک دہائی سے پاکستان پر غیر ریاستی عناصر کی جانب سے مسلط کردہ جنگکا تسلسل ہیں جس میں پاکستان دشمن عناصر اپنے زر خرید ایجنٹوں ( پروکسیز ) کے زرئعے پاکستان کے معاشی، معا شرتی ، عدالتی، سیاسی اور ثقافتی ڈھانچے کو نشانہ بنا رہے ہیں.

چیرنگ کراس لاہور خود کش دھماکہ کے تناظر میں لکھے گئے14 فروری کے کالم میں عرض کی تھی کہ دہشت گردوں کے اہداف وسیعتراورکثیرالجہتی ہیں اور معاملہ صرف پی.ایس.ایل کو ناکام بنانا نہیں بلکہ ملک میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر شروع کرنا ہے جس سے پاکستان کی معیشت و دفاع کو نشانہ بنایا جا سکے.

رواں ماہ پاکستان کے طول و عرض میں ہونے والےحملوں میں دہشت گردوں کے عزائیم مزید کھل کر سامنے آ گئے ہیں. دہشت گردوں نے کراچی ، لاہور ، پشاور ، ، آواران بلوچستان ،مہمند ایجنسی، سہون،  سندھ ، ڈیرہ اسماعیل خان  اور چار سدہ میں عوام، پولیس ، فوج ، لیویز،  ججز اور میڈیا کوخود کش حملوں ، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے زریعہ نشانہ بنایا جس میں 120 سے زائد افراد جاں جاں بحق اور 300 سے زائد زخمی ہوئے .بھیانک ترین خودکش دھماکہ سندھ میں واقعصوفی بزرگ لال شہباز قلندر کی درگاہ پر میں ہوا جس میں عورتوں ، بچوں سمیت 88 سے زائد افرادلقه اجل بنے جس پر ہر آنکھ اشکبار اور دل مضطرب ہے.

حملے کس کس نے کیے ؟

ان حملوں کی زمہ داری مختلف موقعوں پر جماعت الا حرار ، تحریک طالبان –فضل الله گروپ اور داعش نے علیحدہعلیحدہ قبول کی جبکہ ان میں لشکر جھنگوی کے ملوث ہونے کے آثار بھی صاف نظر آئے ہیں ( ڈی.آئی.خان پولیس وین حملے کے بعد  پولیس مقابلے میں لشکر جھنگوی سے وابستہ خطرناک دہشت گردوں کی ہلاکت سے)جماعت الا حرار سے وابستہ  لاہور خود کش دھماکوں کے سہولت کار کو گرفتار کر لیا گیا جس نے بتایا کہ خودکش حملہ آور کا تعلق افغانستان سے تھا اور حملے کی منصبوبہ بندی بھی وہیں سے کی گئی.

پاکستان کا ردعمل ؟

پاکستان نے ایک نیے عسکری آپریشن ‘ رد الفساد ‘ کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد ملک سے دہشت گردی کے ناسور سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنا بتایا گیا ہے. پاکستان افواج کے تعلقات عامہ کے شعبہ کی مطابقیہ آپریشن پاکستان کے کسی خاص حصے کے بجائے پورے پاکستاں میں ہو گا ، جس میں آرمی ، پولیس رینجرز کے علاوہ پاکستان نیوی اور فضائیہ  کو بھی ضرورت پڑنے پر استعمال کیا جائے گا. پورے ملک سے اسلحہ اور گولہ بارود کا خاتمہ اور بارڈرسیکورٹی مینجمنٹ بھی اس آپریشن کا حصہ ہوں گے. نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد بھی مذکورہ آپریشن کا ایک ہدف بتایا گیا ہے. صوبہ پنجاب کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہاں دہشت گردوں کی نرسریاں موجود ہیں اور پنجاب میں آپریشن کے بغیر ملک میں امن نہیں سوسکتا. تمام سیاسی جماعتوں کے مطالبے کے بعد پنجاب کو 60 دنوں کے لیے رینجرز کے حوالے کر دیا گیا ہے.دہشت گردی کی حالیہ لہر کا پاکستانی ریاست نے اپنی سرحدوں کے اندر اور باہر  خوب جواب دیا جس سے ملک دشمن عناصر اور ان کے آقاؤں کو ایک واضع پیغام ملا کہ پاکستان اپنے دفاع کے لیے کسی بھی ممکنہ حد تک جا سکتا ہے.

 سانحہ سیہون کے بعد مختلف آپریشنوں میں کلعدم تنظیموں کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار اور 100 سے زا ید دہشت گردوں کو اپنے انجام تک پہنچا دیا گیا. افغان سفیر کو GHQ بلا کر 76 مطلوبہ دہشت گردوں کی فہرست اور یہ پیغام دیا گیا کہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں کے خلاف یا تو خود کاروائی کرے یہ پھر پاکستان کو ایسا کرنے کا موقع دے. پاکستانی آرمی چیف نے  افغانستان میں تعینات امریکی جنرل نکلیسسن سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور  افغانستان کی سرزمن کو پاکستان کی خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے لیے کردار ادا کرنے کا کہا  . پاکستان کی عسکری قیادت قوم کے خون کے قطرے  قطرے کا حساب لیے جانے کے عزم کا اظہار کیا .

پاکستان نے پاک-افغان سرحد بھی مکمل بند کرنے کا اعلان کیا . پاکستان افغانستان کے صوبے ننگرہار اور کنڑ میں موجود تحریک طالبان اور جماعت الاحرار کے کیمپوں کو نشانہ بنایا جس سے متعدد کیمپ تباہ اور کئی دہشت گرد کمانڈرز کی ہلاکت پاکستانی میڈیا نے رپورٹ کی. پاکستان نے شمالی وزیرستان سے دراندازی کی کوسش کو فضائی حملوں سے ناکام بنایا.

کیاحالیہ حملے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ ہیں ؟

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ باہم مربوط حملے ایک دہائی سے پاکستان پر غیر ریاستی عناصر کی جانب سے مسلط کردہ جنگکا تسلسل ہیں جس میں پاکستان دشمن عناصر اپنے زر خرید ایجنٹوں ( پروکسیز ) کے زرئعے پاکستان کے معاشی، معا شرتی ، عدالتی،  سیاسی اور ثقافتی ڈھانچے کو نشانہ بنا رہے ہیں.

پاکستان دشمن عناصر کے بنیادی اہداف  کیا ہیں ؟

‘فورتھ جنریشن وار فیر’کے زریعے دشمن نے متعدد چھوٹے چھوٹے دہشت گرد گروہ تشکیل دیے ہیں جن کا ہدف نسل کشی پر مبنی وحشیانہ حربوں ، نفسیاتی جنگ ، میڈیا وار کے زر ئعے پاکستان کو فوجی ، معاشی اور معا شرتی طور پر کمزور کر کے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرناہے.

پاکستان کی نسبتا سنبھلتی ہوئی معیشت اور ملٹی بیلن ڈالر پاک-چین اقتصادی راہداری بھی دشمن کے نشانے پر ہے کیونکہ اس کے بعد معاشی فوائد کے علاوہ  پاکستان کی سٹرا ٹیجیک اہمیت ،میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا. چین کی تجارت کے لیے پاکستان کی حیثیت شہ رگ کی ہو گی اور چین پاکستان کے دفاع کو اپنا دفاع سمجھے گا .ان دھماکوں کا مقصد پاکستان کا امن عامہ کے حوالے سے ہوتا ہوا بہتر تاثر بھی ہے جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کئی گنا اضافہ ممکن ہے.

امن عامہ کے حوالے سے بہتر ہوتے ہوئے تاثر کو سبوثار کرنے کے لیے پاکستان میں بین الا قوامی کرکٹ اور آئی.پی.ایل کو نشانہ بنایا جا رہا ہے. کرکٹ پاکستان قوم کے اندر اتحاد اور یکجہتی کے فروغ کا باعث بھی ہے اور اس سے لوگوں کی بے چینی اور پریشانی بھی دور ہوتی ہے ، اس لیے کھیل کے میدان خصوصا کرکٹ بھی دشمن کے نشانے پر ہے.  کیونکہ دہشت گردوں کا مقصد خوف و ہراس اور ابتری پیدا کرنا ہے. جس کے لیے وہ مختلف ہتھکنڈے استمعال کر رہے  ہیں.

پاکستان دشمن عناصر دہشت گرد گروہوں ( ایٹیلیجنس اثاثوں ) کے دباو کے زرئعے پاکستان کو اپنی افغان اور ہندوستان پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں. ہندوستان کے وزیرا عظم نریندر مودی ، وزیر دفاع منوہر پاریکھر اور نیشنل سیکورٹی کے مشیر اجیت ڈول آن ریکارڈ پاکستان کے خلاف نان سٹیٹ ایکٹر اور دہشت گردی کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں.

اسی طرح امریکی اسٹبلشمنٹ میں موجود کچھ عناصر بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ افغانستان میں ہونے والی افغان طالبان کی کاروائیوں میں پاکستان ملوث ہے . حال ہی میں افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل جان نیکلسن نے امریکی سینٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے امریکی پالیسی سازوں کو مشورہ دیا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرے.اس ضمن میں حقانی نیٹ ورک کے بارے میں یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان پر حملے کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کر رہا ہے. پاکستان نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کرتے ہوئے بارہا اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گا.

امریکی، افغان اور ہندوستانی خفیہ ادارے پاکستانی طالبان کو پاکستان پر دباو ڈالنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں. اشرف غنی کی کھٹ پتلی حکومت مکمل طور پر ہندوستان کے زیر اثر ہے جو افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے. ہندوستانی پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ غیر ریاستی عناصر کے زرئعے پاکستان میں دہشت گردی کروا کر وہ پاکستان کو کشمیروں کی اخلاقی اور سفارتی مدد سے روک سکتا ہے.  اس ضمن میں ہندوستان کے موجودہ نیشنل سکورٹی ایڈوائزر اجیت ڈول اور وزیر دفاعمنوہر پاریکھر پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ حربوں کے استعمال کرنے کے مذموم عزم کا اظہار متعدد دفعہ کرچکے ہیں.اجیتڈول دہشت گرد گروہوں کی مدد سے پاکستان پر دباو بڑھانے کی اپنی اس پالیسی کو ‘ جارحانہ دفاع’ کا نام دیتے ہیں جس کا مقصد کرائے کے فوجیوں (ercenariesM) کے زرئعے جنگ کو پاکستان کی سرزمین پر لے جا کر بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنا ، پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا ، کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹانا اور پاکستان کو کشمیروں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کرنے سے روکنا ہے. ہندوستان پاکستان کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے جس کے لیے وہ پاکستانی کی مشرقی اور مغربی دونوں بارڈر پر دباو بڑھانے کے بلکہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف ہے.

راہ حل ؟

اندرونی اقدامات :

ملک میں دیرپا امن قائم کرنے اور دہشت گردوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو اپنی اندرنی کمزوریوں پر قابو پانا اور دشمن کی کمزوریوں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا ہو گا. گورننس کو بہتر بنانا، اینٹلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان بہتر کوارڈینیشن ، شدت پسندی کے خاتمے کے لیے متابادل بیانیے کی تخلیق و ترویج ، پولیس اور نظام انصاف کو بہتر بنانا اور نیشنل ایکشن پلان کی دیگر شقوں پر اسکی اصل روح کے مطابق عمل کرنا ہو گا. پاکستان میں دہشت گردی کے تانے بانے فرقہ وارانہ دہشت گردی سے جڑے ہوئے ہیں ، اس لیے فرقہ وارانہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا قلعہ قمہ کیے بغیر پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں.

بیرونی اقدامات :

اگر پاکستان کی اندرونی کمزوریاں ہیں تو اس کے دشمن کی کمزوریاں 10 گنا زیادہ ہیں. اگر ہندوستان بلوچستان میں شورش برپا کر سکتا ہے تو ہندوستان کے اندر بھی درجنوں علیحدگی کی تحریکیں چل رہیAnchor ہیں جن کی پاکستان اخلاقی ، مالی اور سفارتی مدد کر کے ہندوستان کو راہ راست پر لا سکتا ہے. پاکستان کو جارحانہ دفاع کی پالیسی اختیار کرنا ہو گی .ایک عرصہ سے ہندوستان کو یک طرفہ رعایتیں دیے جانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے. پاکستان ایک متحرک سفارتی مہم کے زرئعے عالمی برادری کے سامنے پاکستان میں ہندوستانی مداخلت کے ثبوت پیش کر ہندوستان کا اصل چہرہ بےنقاب کر سکتا ہے.

پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانا ہو گا تاکہ ہندوستان کو افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا موقع نہ مل سکے. اس ضمن میں پاکستان کو افغان حکومت کی تشویش پر بھی ٹھنڈے دل سے غور کر کے دہشت گردی کو مل کر ختم کرنے کی کوشش کرنا ہوگی. کیونکہ دونوں ممالک کا امن کا انحصار ایک دوسرے سے وابستہ ہےخطے کے دیرپا امن کے لیے افغانستان کو اس چیز کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہندوستان پاکستان میں شورش برپا کرنے کے لیے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرے گا.

جہاں تک امریکہ کی بات ہے توپاکستان کو امریکہ سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہییں . ویسے بھی امریکہ افغانستان میں اپنا کام نکل جانے کے بعد مخلتف حیلوں بہانوں سے پاکستان کو دی جانے والی امداد بند کر چکا ہے.اس لیے پاکستان کو سی-پیک کو فوکس کرتے ہوئے چین ، روس ، ایران اور سینٹرل ایشیائی ریاستوں کے ساتھ مل کر نئی تزویراتی صف بندی کرنا چاہیے. پاکستان کو امریکہ کی ضرورت ہے تو اس سے کہیں بڑھ کر خطے میں امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہے.

‘ ڈو مور ‘ کا مطالبہ کرنے والے امریکہ سے اب افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملے رکوانے کے لیے ‘ ڈو مور ‘ کے مطالبے کا وقت ہے.

کم شدت کی طویل عرصہ تک لڑی جانے والی اس جنگ میں مسقل مزاجی ، پالیسیوں کا تسلسل ، گڈ گورننس ، سیاسی و عسکری قیادت میں ورکنگ ریلیشن شپ ، بہتر سفارتی کاری اور بلند حوصلے پاکستان کی کامیابی کی ضمانت ہیں.

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...